قاموس الفقہ کا کام تو نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ خیال جو عرصہ سے دل و دماغ میں پرورش پارہا تھا شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے ،چنانچہ دو تین کتابوں کی ورق گردانی کی اور ضروری عبارتیں کچھ تو نوٹ کروالیں اور کچھ کی فوٹو اسٹیٹ اور دوران سفر ہی اس کام کو شروع کیا بلکہ دو یا تین ابواب قیام حجاز ہی کے درمیان لکھے گئے ،تبرکاًایک دو صفحہ مقام ابراہیم پر اور مسجد نبویؑ میں صفّہ میں بھی لکھے گئے کہ شایدان مقامات کی برکت وسعادت اس مرد گنہ گار کی اس تحریر کے قبول کا باعث ہو جائے ۔
وما ذلک علی اللہ بعزیز۔
سفر کے درمیان خاصہ کام ہوجاتا،لیکن اندازہ ہوا کہ مجھ جیسے محرومان لذت ذکرو عبادت اور خوگرانِ معصیت کو بھی وہاں پہنچکر چوکھٹ یار پر جبین گناہ خم کرنے کے سوا کسی اور کام میں کم لطف آتا ہے ،چنانچہ اواخرِرمضان المبارک میں واپسی ہوئی اور کام بہت تھوڑا ہوا ۔ پھر بعض اسفار اور مدرسہ کی انتظامی ذمہ داریوں کی وجہ سے اوائلِ ذیقعدہ تک مسودہ یوں ہی پڑا رھا ،وسط ذوقعدہ سے ختم ذی لحجہ تک اس کام کو پور کیا کہ آغازِسال ہونے کی وجہ سے ان دنوں تدریسی مصروفیات کم رہتی ہیں اب یہ تحریر جیسی کچھ مرتب ہوسکی قارئین کے سامنے ہے ۔
میں نے اس تحریر میں کتاب و سنت کی نصوص اور فقہاء کی نصوص دونوں کو ملحوظ رکھا ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ خدا اور رسول کی ہدایات کو فقہاء کے اجتہادات اور شارحین کی تشریحات پر اولیت حاصل رہے ۔کتب فقہ میں بہت سی ایسی جزئیات مل جاتی ہیں جو ان کے زمانہ کی ضروریات یا اس عہد کے سماجی یا اخلاقی حالات کے تحت لکھی گئی تھیں ،موجودہ حالات میں اس کو جوں کا توں نقل کر دینا بعض موقوں پر اباحیت اور بعض صورتوں میں حرج و تنگی کا باعث ہوگا۔ان احکام کے مطابق فتویٰ دینا تو کُجا،حق یہ ہے کہ عوام میں ان کا بیان کرنا بھی صحیح نہیں ۔ میں نے ایسے مسائل