انسان کی طبیعت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ دوسرے انسان کے ذریعہ سکون وقرار حاصل کرتا ہے ، وہ جب پیدا ہوتا ہےتو ماں کی ممتا ، باپ کی شفقت اور بھائی بہنوں کاپیار اور دل کا قرار ہوتا ہے اور جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے ان رشتوں سے اس کا جذباتی اور والہانہ لگاؤ کم ہوتا جاتا ہے اور بیوی اس کمی کو پورا کرتی ہے اور اگر نیک اور صالح ہو تو قلب کی ٹھنڈک اور ذہن ودماغ کی راحت کا سامان بن جاتی ہے ، پھر جوں جوں عمر ڈھلتی جاتی ہے اولاد کی محبت بیوی کی محبت پر غالب ہوتی جاتی ہے لیکن موت تک اس کے لئے اصل سامانِ سکون ، حزن ومسرت کی شریک ، دل کے زخموں کا مرہم اور خلوت وجلوت کی ہمراز ودمساز یہی بیوی ہوتی ہے ، اسی لئے قرآن کریم نے کہا ہے لتسکنوا الیہا (روم :21 ) اور میاں بیوی کے باہمی تعلق کے لئے نہایت عمدہ تعبیر : لباس ؛ کا استعمال فرمایا کہ تم دونوں ایک دوسرے کے لباس ہو ھن لباس لکم وانتم لباس لھن (بقرۃ ؛ 187 ) کہ لباس سے زیادہ کوئی چیز جسم انسانی کی ہمراز ، انسان کے خوبی وخامی سے باخبر اور موسموں کی شدت سے صحت کی محافظ نہیں ہوتی۔
غور کیا جائے تو نکاح کے تمام احکام انہی تینوں مقاصد کے گرد گردش کرتے ہیں ۔ عدت اور ثبوت نسب کے تمام احکام اور تعلق ازدواجی کی بابت تمام ہدایات اسی لئے ہیں کہ افزائش نشل کی ضرورت پوری ہو اور نسل انسانی کی شناخت باقی رہے
نکاح سے پہلے منگیتر کو دیکھنے کی اجازت ، زنا کی حرمت اور بیوی بچوں سے زن وشوہر کے تعق کی ترغیب ، ایک دوسرے کے مقتضیات نفس کی رعایت کی ہدایت ، مردوں کے لئے ایک تا چار بیویوں کی اجازت وغیرہ احکام کامقصود محض عفت وپاکدامنی اور عصمتِ انسانی کا تحفظ ہے ۔