تجرد کی اس زندگی سے افضل ہے جس میں نفل عبادت میں اپنا وقت مصروف رکھا جائے کہ احکام ہمیشہ مقاصد کے تابع ہوتے ہیں اور مقاصد کو سمجھے بغیر نہ اس شعبہ کے متعلق کسی نظامِ حیات کے مزاج و مذاق کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ احکام کی تفصیلات کو۔
اسلام کی نگاہ میں نکاح کا اصل مقصود توالد و تناسل ہے، اس لئے قرآن مجید نے بیوی کو مرد کے لیے کھیتی قرار دیا ہے۔ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ ﴿بقرہ:٢٢٣﴾
-------------(کتاب میں آیہ کا حوالہ ۲۳۲ دیا گیا ہے جبکہ یہ آیہ نمبر ۲۲۳ ہے)----------
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مناکحت کی ترغیب دیتے ہوئے اس کو افزائشِ امت کا باعث فرمایا "تناکحواتنا سلوا (۱)۔ بعض روایات میں خاص طور پر ایسی عورت سے نکاح کرنے کی ہدایت فرمائی جس میں تولید کی قوت و صلاحیت زیادہ ہو "تزوجوا الودود الولود (۲)۔ قرآن نے صالحین اور نیکو کار بندوں سے ایک ساتھ بیوی اور اولاد دونوں کی دعا کرائی ہے "هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ ﴿فرقان:٧٤﴾اوراساسی مقصود نسلِ انسانی کی افزائش ہے۔ اسی لئے شریعت اسلامی اصولی طور پر ضبطِ ولادت کے نظریہ کی حامی نہیں ہے جس کا آگے ذکر آئے گا۔
نکاح کا دوسرا اہم مقصد عفت و عصمت کی حفاظت ہے اور فطری طریقہ پر انسان کی نفسانی ضروفت کی تکمیل۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح انسان کو بدنگاہی سے بچاتا ہے اور بے عفتی سے حفاظت کرتا ہے "فانہ اغض للبصر واحصَن للفرج (۳)۔ قرآن مجید نے شادی شدہ مرد و عورت کو "محصِن" اور "محصنہ" سے تعبیر کیا ہے جس کے معنی قلعہ بند کے ہیں۔ گویا نکاح کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو عفت و عصمت کے قلعہ میں محفوظ کر لیتا ہے اور شیطان اس پر تسلط حاصل نہیں کر پاتا۔
--------------------------------------------------
(۱) بخاری ۲/
(۲) مشکوٰۃ ۲/۲۶۷۔
(۳) حولہ سابق۔