کی تکان کو اتارتی ہے، انسانی ذہن و دماغ کے ساتھ بھول اور نسیان کا رشتہ بھی جوڑ دیا کہ اس سے غم غلط ہوتا ہے اور دماغی الجھنیں کم ہوتی ہیں۔ اسی مقصد کے لئے انسان مزاح اور ظرافت کا سہارا لیتا ہے، اس سے باہمی محبت اور الفت بھی بڑھتی ہے، مساوات و برابری کا اظہار ہوتا ہے اور دوسروں کو ایک لمحہ خوش ہونے کا موقعہ میسر آتا ہے، پس شریعت نے بھی مزاح کو جائز رکھا ہے۔ خود انسان کامل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مزاح فرمایا کرتے تھے۔
حدیث کی کتابوں میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ایک شخص نے جنابِ قدسی صلی اللہ علیہ وسلم میں سواری کی درخواست کی، فرمایا کہ میں اونٹنی کا بچہ دے سکتا ہوں۔ سائل نے عرض کیا کہ اونٹنی کے بچہ سے بھلا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اونٹ اونٹنی ہی کا بچہ تو ہوتا ہے (۱)۔ ایک صاحب سے مزاحاً کہا کہ اے دو (۲) کانوں والے (۲)؛ ایک بوڑھی خاتون آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بوڑھی عورت جنت میں داخل نہیں ہو گی۔ وہ قرآن پڑھا کرتی تھیں، کہنے لگیں بوڑھی عورتوض کا کیا قصور کہ وہ جنت میں نہیں جائیں گی، ارشاد فرمایا کہ تم نے قرآن نہیں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ان کی جوانی لوٹا دیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ بڑھاپے کی حالت میں وہ نہیں جائیں گی (۳)۔ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عملاً بھی مزاح فرمایا کرتے۔ زاہر بن ہران آپ کے دیہاتی ساتھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک گونہ بے تکلف تھے، شکل و شباہت بہت اچھی نہ تھی، ایک دن اپنا سامان بیچنے میں مصروف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اَن دیکھی میں پیچھے سے آئے اور پکڑ لیا۔ انہوں نے نہیں سمجھا، کہنے لگے، کون ہیں؟ مجھے چھوڑ دو۔ پھر جب گوشۂ چشم سے دیکھا تو اپنی پشت سینۂ مبار ک سے تبرکاً چمٹانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون اس غلام کو خریدے گا، حضرت زاہر نے کہا کہ آپ مجھے معمولی اورکھوٹا سودا پائیں گے۔
----------------------------------------------------------------
(۱) ترمذی عن انس باب ماجاء فی المزاح ۲/۲۰۔
(۲) ابو داؤد عن انس باب ماجاء فی المزاح ۲/۶۸۳۔
(۳) مشکوٰۃ الصابیح عن انس باب المزاح /۴۱۶۔