ولو کانت الصورۃ علی وسادۃ ملقاۃ او علی بساط مفروش لا یکرہ لانھا تداس وتوطاء (1) پڑے ہوئے تکیئے یا بچھے ہوئے بستر پر تصویر ہو تو مکروہ نہیں کہ اسے روندا جاتاہے،
پھر آگے وضاھت کرتے ہیں کہ دراصل دو صورتوں میں تصویر کی کراہت ہی، ایک اس وقت جب اس کی تعظیم کی صورت اختیار کی جائے ۔ دوسرے اس وقت جب غیر مسلموں سے تشبہ پیدا ہو جائے ، جیسے نماز کے وقت سامنے کھڑی کر کے تصویر رکھنا ، یا ایسی تصویریں جن کی غیر مسلم پرستش کرتے ہیں ۔
الذی یظھر من کلامھم ان العلۃ اماالتعظیم او التشبہ (2) ان کے کلام سے یہ بات ظاہر ہے کہ اصل علت تصویر کی تعظیم یا تشبہ ہے۔
جو حضرات فرش وغیرہ کی تصویر کو درست کہتے ہیں ان کے پاس جیسا کہ ذکر کیا گیا متعدد روایات اور آثار موجود ہیں جن میں بعض نہایت واضح اور سند کے اعتبار سے بھی قوی ہیں مثلا حضرت عائشہ رضی اللہ ناقل ہیں کہ ان کا ایک پردہ تھا جس پر پرندہ کی تصویرتھی ، آپؐ جب تشریف لاتے تو اس کا سامنا ہوتا ، آپؐ نے فرمایا : اسے ہٹا دو ؛ حولی ھذا ؛ کہ میں جب داخل ہوتا ہوں اور نظر پڑتی ہے تو دنیا یادآتی ہے (3)
اب دیکھئے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء آپؐ نے منع نہیں فرمایا پھر منع کیا تو دنیا یاد آنے کو علت قرار دیا ۔ پھر صرف ہٹانے کا حکم دیا ، نہ پھاڑنے کا اور نی تصویر کو مسخ کرنے کا ، بلکہ ایک اور سند میں صراحت ہے کہ آپ نے قطع کرنے کا حکم نہیں فرمایا (4)
--------------
(1) رد المحتار 435/1 (2) حوالہ سابق ص : 436
(3) صھیح مسلم 200/2
(4) حوالہ سابق فلم یامر نا رسول اللہ