ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایک مصور پردے کے حجرۂ اقدس میں موجودگی کی وجہ سے آنے سے انکار کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان تصویروں کے سر کاٹ دیں یا اس کو فرش بنا دیں : فاما ان تقطع رؤسھا او تجعل بساطاً یوطأ (۱)، چنانچہ کتب حدیث کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اور اجلٔہ تابعین نے مصور تکئے استعمال کئے ہیں۔
فقہاء اور سلف صالحین کی ایک بڑی جماعت اسی کی قائل رہی ہے۔ شارح بخاری علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :
۔۔۔۔۔۔ و خالف الٰاخرون ھٰؤلاء المذکورین و ھم النخعی والثوری و ابو حنیفہ و مالک و الشافعی و احمد فی روایۃ و قالو اذا کانت الصّور علی البسط والفرش التی توطاً بھا الاقدام فلا باس بھا و اما اذا کانت علی الثیاب۔ والستائر و نحوھما فانھا تحرم۔ و قال ابو عمر ذکر ابن القاسم قال کان مالک یکرہ التماثیل فی الاسرۃ والقباب واما البسط والرسائد ولثیاب فلا باس بہ (۲)۔ دوسرے لوگوں نے ان مذکورہ حضرات سے اختلاف کیا ہے اور وہ نخعی، ثوری، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور ایک ۔۔۔۔۔ روایت کے مطابق احمد ہیں۔ ان حضرات نے کہا تصویریں بستروں اور فروش پر ہوں جو پاؤں سے روندے جاتے ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ کپڑے، پردے وغیرہ پر ہوں تو حرام ہیں۔ ابو عمر ابن قاسم کے حوالہ سے امام مالک سے ناقل ہیں کہ آپ تخت اور گنبدوں پر تصویریں مکروہ سمجھتے تھے، فروش و تکیوں اور کپڑوں پر نہیں۔
ابن عابدین شامی رحمہ اللہ، متاخرین میں، جن کا پایۂ تلمی محتاج اظہار نہیں، صاحبِ ہدایہ سے نقل کرتے ہیں :
-------------------------------------------------------------
(۱) نسائی عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ باب التصاویر ۲/۳۰۱
(۲) عمدۃ القاری ۱۲/۴۰۔