اسلام نے گو تعمیر کے سلسلہ میں قانون کی سطح پر کوئی قید وبند عائد نہیں کی اور نہ کسی خاص نقشہ کی تعیین کی ، سوائے اس کے کہ اس کا مکان دوسرے پڑوسیوں کے لئے ضرر کا باعث نہ بنے ، لیکن اخلاقی طور پر اس میں حد سے گزرے ہوئے غلو اور افراط کو ناپسند کیا ہے ۔ تعمیر مکان کی طرف زیادہ توجہ اور اس کی تزئین و آرائش میں افراط اور مقابلوں کے نتیجہ میں انسان اپنی دولت کا بڑا حصہ اس مد میں صرف کردیتا ہے ، یہ رقم جو اینٹ اور گاڑے ،پتھر اور چونے کی صورت میں منجمد ہوجاتی ہے ، ایک طرف خود اس کی دولت میں نمو اور بڑھوتری کو روک دیتی ہے ۔ دوسری طرف اس سے بالواسطہ اس کی قوم کے دوسرے لوگوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے کہ اس سرمایہ کے گردش میں رہنے کی وجہ سے دوسروں کو اس سے جو نفع پہونچتا وہ اس سے رک جاتا ہے اس کے علاوہ اخلاقی طور پر اکثر کم ظرف لوگوں میں اس کی وجہ سے کبر اور ترفع کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے کافی سے زیادہ تعمیر کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے ۔
عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے ، میں اور میری والدہ دیوار پر مٹی کا پلاسٹر کررہے تھے (وأنا أطین حائطا) آپؐ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا : موت کا معاملہ اس عمات سے زیادہ قریب ہے ’’ الامر اسرع من ذلک ‘‘ (۱) ایک روایت میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب مکان پر بلند گنبد دیکھا ، آپ کو یہ تعمیر پسند نہ آئی ، ان صاحب مکان نے سلام کیا تو اازراہِ اصلاح منہ پھیر لیا ، انہوں نے محسوس کرلیا اور گنبد کو ڈھا دیا ، آپ نے یہ دیکھا تو خوش ہوئے اور فرمایا کہ : ہر تعمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) ابو داؤد باب فی البناء ، کتاب الادب ۳؍۷۱۰