لباس کے استعمال کی ممانعت معلوم ہوتی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی روایت ایسی نہیں جو درجۂ صحت کو پہنچتی ہو۔ اس کے مقابلہ میں وہ روایات ہیں جو سُرخ رنگ کے استعمال کے جواز کو بتلاتی ہیں۔ چنانچہ حضرت براء بن عازب سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ حلہ میں ملبوس دیکھا (۱)۔ اسی وجہ سے شارحین نے اس مسئلہ میں فقہاء محدثین کے آٹھ اقوال نقل کیے ہیں۔ مالکیہ، سوافع اور اکثر لوگوں سے اس رنگ کا جواز منقول ہے (۲)۔ حناف کا قول مختلف ہے، بعضوں نے مکروہ تحریمی اور بعضوں نے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے کہ امام ابو حنیفہ بھی اس کو مباح قرار دیتے تھے اور بقول شامی کراہت اس وقت ہے جب عورتوں سے یا عجمیوں سے تشبہّ مقصود ہو یا ازراہِ تکبر اس کا استعمال کرے (۳)۔ تاہم راقمِ سطور کو اس سلسلہ میں طبری کا قول بہت صحیح معلوم ہوتا ہے جسے ابن حجر نے نقل کیا ہے :
الذی اراہ جواز لبس الثیاب المصبغۃ بکل لون الا انی لا احب لبس ما کان مشبعا بالحمرۃ ولا لبس الاحمر مطلقاً ظاہراً فوق الثیاب لکونہ لیس من لباس احل المروءۃ فی زماننا فان مراعاۃ زی الزمان من المروءۃ مالم یکن اثماً۔ (۴)
ہر رنگ میں رنگے ہوئے کپڑوں کے پہننے کے جواز کا قائل ہوں،ہاں نہ مکمل سرخ کپڑے کا اور نہ اوپری کپڑے میں مطلقاً سرخ رنگ کا کہ یہ ہمارے زمانہ میں اہل وقار کا لباس نہیں اور جب تک گناہ کے دائرہ میں نہ آتا ہو وقت کے اصحابِ مروت لوگوں کی وضع اختیار کرنی چاہیے۔
مردوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن رنگوں کو ممنوع قرار دیا ہے۔
---------------------------------------------------------------
(۱) بخاری باب الثوب الاحمر کتاب اللباس۔
(۲) سُرخ رنگ کے بارے میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری ۱۰/۶-۳۰۴، تحفۃ الاحوذی ۳/۴۲، ۴۳۔
(۳) دیکھئے شامی ۵/۲۲۸۔
(۴) فتح الباری ۱۰/۳۰۶۔