اَب جب کہ ایسا ممکن ہو چکا ہے، اب قدامہ کی تشریح کے مطابق ایسے اعضاء کی خرید و فروخت بھی درست قرار پائے گی۔
پس حاصل یہ ہے کہ :
(۱) اعضاء انسانی کی پیوند کاری کے لیے جو طبی طریقہ ایجاد ہوا ہے اس میں توہینِ انسانیت نہیں ہے۔
(۲) اس لیے یہ جائز ہے بشرطیکہ اس کا مقصود کسی مریض کی جان بچانا یا کسی اہم جسمانی منفعت کو لوٹانا ہو، جیسے بینائی۔
(۳) اور طبیب حاذق نے بتایا ہو کہ اس کی وجہ سے صحت کا غالب گمان ہے۔
(۴) غیر مسلم کے اعضاء بھی مسلمان کے جسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔
(۵) مردہ شخص کے جسم سے عضو لیا جا رہا ہو تو ضروری ہو گا کہ خود اس نے زندگی میں اجازت دی ہو، اس لیے کہ وہ جسم کا مالک ہے، نیز اس کے ورثاء کا بھی اس کے لئے راضی ہونا ضروری ہے۔
(۶) زندہ شخص کا عضو حاصل کیا جا رہا ہو تو ضروری ہو گا کہ خود اس نے اجازت دی ہو اور اس کی وجہ سے خود اس کو ضرر شدید نہ ہو۔
(۷) اعضاء کی بیکنگ بھی درست ہے، شوفع اور حنابلہ کے یہاں اعضاء کی خرید و فروخت دونوں کی گنجائش ہے اور احناف کے نزدیک بدرجہ مجبوری خرید کر سکتے ہیں لیکن فروخت نہیں کر سکتے۔ (۱)۔
ھٰذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
-------------------------------------------------------------
(۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : "جدید فقہی مسائل حصہ دوم۔