و قال الشافعی رحمہ اللہ یجوز بیعہ و یضمن متلفہ لان ھذا لبن طاھر او مشروب طاھر کلبن الانعام ولانہ غذاء للعالم فیجوز بیعہ کسَائر الا غذیۃ۔ (۱) اور امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی بیع جائز ہے اور اس کے تلف کرنے والے پر ضمان لازم ہو گا۔ اس لئے کہ یہ پاک دودھ یا مشروب ہے جانوروں کے دودھ کی طرح اور اس لئے کہ یہ اہل دنیا کی غذا ہے۔ پس اس کا فروخت کرنا بھی تمام غذاؤں کی طرح جائز ہو گا۔
فقہاء حنابلہ کے درمیان گو اس مسئلہ میں اختلاف ہے لیکن حنبلی دبستانِ فقہ کے مشہور ترجمان ابن قدامہ کے نزدیک بھی ترجیح اسی کو ہے کہ عورت کے دودھ کی خرید و فروخت جائز ہے (۲)۔
لہذا احناف کے نزدیک بدرجۂ مجبوری صرف ایسے اعضاء کو خرید کرنا جائز ہو گا جیسا کہ فقہاء نے بوقتِ ضرورت رشوت دینے یا سودی قرض حاصل کرنے کی اجازت دی ہے لیکن شوافع اور حنابلہ کے نزدیک ایسے اعضاء کی خرید و فروخت دونوں درست ہو گی، اس سلسلہ میں ابن قدامہ کی یہ عبارت اور اس کا عموم قابلِ لحاظ ہیں کہ "وسَائر اجزاء الاٰدمی یجوز بیعھا لان یجوز بیع العبد وَالامۃ" (۳)۔ آگے چل کر ابن قدامہ نے گو جسم سے تراشے گئے عضو کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے مگر یہ اس لئے نہیں کہ انسانی اجزاء سے انتفاع جائز نہیں بلکہ اس لئے کہ اس وقت تک انسانی اعضاء سے انتفاع ممکن نہ ہو سکا تھا : "و حرم بیع العضو المقطوع لانہ لا نفع فیہ" (۴)
-----------------------------------------------------------
(۱) المبسوط ۱۵/۱۲۵۔
(۲) المغنی ۴/۱۷۷۔
(۳) حوالۂ سابق۔
(۴) حوالۂ سابق۔