لئے ذبح کیا گیا ہے (۱)۔ ان روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ چاہے جانور کے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے لیکن اگر غیر اللہ کی تعظیم مقصود ہو تو ذبیحہ حرام ہی ہو گا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں :
نھی اللہ المؤمنین عن ھذا الصنیع و حرم علیھم اکل ھذہ الذبائح التی فعلت عند النصب، حتی ولو کان یذکر علیھا اسم اللہ فی الذبح عند النصب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و ینبغی ان یحمل علیٰ ھذا لانہ قد تقدم تحریم ما اھل بہ لغیر اللہ (۲)۔
اہلِ ایمان کو اس طریقہ سے منع فرمایا گیا اور ان کے لئے آستانوں پر کئے جانے والے ذبیحے حرام قرار دیئے گئے، گو آستانوں پر ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ لے لیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کا یہی معنی مراد لیا جانا چاہیے کیوں کہ ان جانوروں کی حرمت کا ذکر پہلے ہو چکا ہے جن کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
راقم الحروف کا خیال ہے کہ ایسا جانور جس کو غیر اللہ کے نام پر چھوڑا جائے، چاہے کسی نبی یا ولی کے نام پر کیوں نہ ہو، اگر وہ شخص اپنے اس مشرکانہ عمل سے تائب نہ ہو اور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے لے یا تعظیم کی نیت سے مزاروں اور آستانوں پر جانور ذبح کرے تو یہ بھی مردار ہی کے حکم میں ہو گا اور اس کا کھانا حلال نہ ہو گا کہ یہ بھی "ما اھل بہ لغیر اللہ" کے عموم میں داخل ہے اور معنوی اعتبار سے "ما ذبح علی النصب" کا مصداق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم .
گو ملا جیون کی تفسیر احمدی میں ایسے ذبیحہ کو حلال اور پاک قرار دیا گیا ہے (۳)۔
--------------------------------------------------------
(۱) تفسیر ابن کثیر ۲/۲۱۱
(۲) ابن کثیر ۲ِ۱۲۔
(۳) تفسیر احمدی ص : ۲۴ بحوالہ احکام القرآن للتھانوی ۱/۱۱۷۔