ہی تسبیح وغیرہ کے کلمات پڑھے، ذبیحہ پر اللہ کا نام لینا مقصود نہ ہو تو یہ ذبیحہ حلال نہ ہو گا (۱)۔
یہ بات بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کا نام نہ لیا جائے، یہاں تک کہ اگر ذبح کے وقت اللہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے لے تب بھی ذبیحہ حرام ہو جائے گا، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دو مواقع پر میرا ذکر نہ کیا جائے۔ چھینک کے وقت اور ذبح کے وقت۔ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ذبح کے وقت تنہا اللہ کا نام لو۔ جوزوا التسیۃ عند الذبح (۲)
امام شافعی رحمۃ اللہ کے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی اجازت ہے۔ لیکن عام فقہاء اس کو بھی منع کرتے ہیں (۳)۔------ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا گیا ہے۔ ذبحِ حیوانات میں شریعت نے توحید کے اظہار کی خاص رعایت رکھی ہے۔ اس لئے واقعہ ہے کہ اس موقعہ سے تسمیہ میں رسول کے نام کو شریک کرنا شرک ہی ہے۔ صلوٰۃ و سلام بھی مناسب نہیں۔ عبادت، دعا اور اظہار عقیدہ کے مواقع پر شریعت میں ہمیشہ تنہا خدا کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ تکبیر تحریمہ صرف اللہ کے ذکر سے ہوتا ہے۔ حج کا تلبیہ بھی محض ذکر خداوندی سے عبارت ہے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے، آتے جاتے اور عبادتوں کی ابتداء و انتہا ہر موقع و محل کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نہ کوئی ذکر منقول ہے لیکن ان تمام اذکار میں خدا کی عظمت و بلندی اور امتنان کے سوا اور کسی بات کا ذکر نہیں، نہ وہاں انبیاء و رسل کے ذکر اور صلوٰۃ و سلام کے لئے کوئی جگہ رکھی گئی ہے، اس لئے صحیح وہی ہے جو عام فقہاء کا مسلک ہے۔
-------------------------------------------------------------------
(۱) بدائع ۵/۴۸۔
(۲) حوالہ سابق
(۳) الذبائح فی الشریعۃ الاسلامیہ، از ڈاکٹر عبد اللہ عبد الرحیم العبادی ص: ۳۹۔ المیزان الکبریٰ للشعرانی، کتاب الاضاحی