اتفاق ہے کہ تیز دھاری دار چھری سے ذبح کرنا بہتر ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولیحد احدکم شفرتہ ولیرح ذبحتہ (۱) کہ اس سے خون بہتر طور پر نکل سکتا ہے ، جان جلدی نکلتی ہے اور جانور کو اذیت کم ہوتی ہے ۔
ذابح کے اوصاف
ذبح کرنے والے کو عاقل ہونا چاہیے ، پاگل ، مبتلائے نشہ ، اور ایسا بچہ جس میں عقل وتمیز نہ پیدا ہوئی ہو ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہوگا ، اس لئے ذبح کرنے والے کو ایسا ہونا چاہیے جو ذبح کا مفہوم سمجھتا ہو ، اس پر قادر ہو اور بالارادہ وہ بسم اللہ کہتا ہو (۲) ایسا بچہ جو بسم اللہ اور ذبح کے مفہوم کو سمجھتا ہو اس کا ذبیحہ حلال ہوگا ، یہی حکم کم عقل (معتوہ) آدمی کا بھی ہے ، ذبح کے معاملہ میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں ، گونگا جو قوتِ گویائی سے محرومی کی بنا پر بسم اللہ کہنے سے معذور ہو اس کا ذبیحہ بھی حلال ہوگا (۳) یہی رائے امام مالک اور امام احمد کی بھی ہے ۔ امام شافعیؒ کے نزدیک مجنون اور نشہ میں مدہوش کا ذبیحہ بھی حلال ہوتا ہے۔ (۴)
ذبح کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلمان یا اہل کتاب میں سے ہوں ، ارشاد خداوندی ہے وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم (آل عمران ۹۳) ظاہر ہے کہ یہاں طعام سے ذبیحہ مراد ہے اس لئے کہ دوسرے احکام میں تمام اہل کتاب یکسان ہیں (۵) لہذا مشرک ، مجوسی، مرتد خواہ اس نے کوئی بھی مذہب
ــــــــــــــ----------------------------------
(۱) المغنی ۹؍ ۳۱۷
(۲) بدائع الصنائع ۵؍۴۴
(۳) درالمختار وردالمختار ۵؍۸۹ ، ۸۸
(۴)شرح مہذب ۹؍۷۷
(۵) بدائع ۵؍ ۱۴۵