کہ وہ بھی اس کو حرام قرار دیتے تھے، چنانچہ امام صاحب نے اپنی "مؤطا" میں حضرت ابو ثعلبہ خشنی اور حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ روایت نقل کی ہے جو درندہ جانوروں کی حرمت کے بارے میں ہے۔ پھر لکھا ہے کہ یہی ہماری رائے ہے "و ھو الا من عندنا (۱)"۔
پرندوں کے سلسلہ میں حدیث میں بنیادی اصول یہ بتایا گیا ہے کہ پرندوں میں بھی درندے حرام ہوں گے۔ اور درندوں سے مراد وہ پرندے ہیں جو پنجوں سے اپنا شکار کرتے ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذی ناب من السبع و عن کل ذی مخلب من الطیر (۲)"۔ اسی لئے فقہاء پنجے سے شکار کرنے والے اور دوسرے پرندوں پر حملہ آور ہونے والے پرندوں کو حرام قرار دیتے ہیں (۳)۔ فقہاء شوافع نے اس سلسلہ میں کچھ زیادہ منضبط اصول مقرر کئے ہیں اور وہ یہ کہ تین طرح کے پرندوں کا کھانا حرام ہے۔ اول وہ جو خود درندہ ہو، جیسے باز، شاہین، عقاب وغیرہ، دوسرے وہ کہ جن کو شریعت نے مارنے سے منع کیا ہے جیسے کہ مکھی، ہُد ہُد وغیرہ، تیسرے وہ جن کو مارنے کا حکم دیا ہے جیسے چیل (۴)۔
پرندوں میں کوے کی بعض قسموں کے سلسلہ میں اختلاف ہے، کوئل بالاتفاق حرام ہے۔ اسی طرح نجاست خور کوّا۔ لیکن وہ کوا جو دانے اور کھیتوں سے کھاتا ہے، اکثر فقہاء کے نزدیک جائز ہے (۵) بلکہ ملک علامہ کاسانی نے تو اس کے حلال ہونے پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے "والغراب الذی یا کل
---------------------------------------------------------------
(۱) موطا لمالک ص : ۱۸۴، باب تحریم اکل ذی ناب من السباع۔
(۲) مسلم عن ابن عباس ۲/۱۴۷، باب تحریم اکل کل ذی ناب میں السباع۔
(۳) بدائع الصنائع ۵/۳۹۔
(۴) شرح مہذب ۹/۲۲
(۵) المغنی ۹/۳۳۳، شرح مہذب ۹/۲۳۔