۱۱۵
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ان تمام فقہاء کے سامنے جو بات ہے وہ یہ کہ ایک طرف منکر سے روکنا اور کم سے کم اس پر ناگواری کا اظہار ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ دوسری طرف یہ بات بھی ضروری ہے کہ کسی برائی سے روکنے کے لئے شدت سے بچنے کی راہ اختیار کی جائے اور ایسا عمل نہ کیا جائے جس سے رشتہ و تعلق اور محبت کی وہ آخری سوت بھی کٹ جائے جس کو بنیاد بنا کر آئندہ اصلاح حال کی جا سکتی تھی۔ احناف کا نقطہ نظر اسی دوہرے اصول کے درمیان تطبیق پر مبنی ہے کہ جہاں پر روکنے کی قدرت ہے وہاں روکنے کی سعی میں کوتاہی نہ کرے، جہاں روکنے پر قادر نہ ہو اور پہلے سے خبر ہو وہاں ناگواری کے اظہار اور شرکت میں اجتناب سے تکلف نہ کرے، آگیا ہو اور کسی منکر کا ابتلاء ہو اور سماج میں اس کو مقام اقتداء حاصل ہو تو اب بھی پائے ثبات میں تزلزل نہ آنے دے اور واپس چلا جائے لیکن وہ سماج کا اتنا اہم شخص نہ ہو، پہنچ چکا ہو اور منکرات عین دسترخوان پر نہ ہوں تو کراہیتِ خاطر کے ساتھ رک جانے کی گنجائش ہے اور مصلحت وہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی یہ واپسی رشتہ اور تعلق کی آخری سوت کو بھی کاٹ کر رکھ دے اور آئندہ اصلاحِ حال اور نہی عن المنکر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اب جبکہ معاشرہ میں بعض منکرات لزوم کا درجہ اختیار کرتی جا رہی ہیں، اور ابتلاء اس طرح عام ہوتا جا رہا ہے کہ کیا عوام اور کیا خواص، اور کیا اہل دین اور کیا بے دین؟ کوئی طبقہ محفوظ نہیں۔ ان میں نہی و انکار میں کمال مصلحت و حکمت اور تدریج سے کام لیا جائے، ایسا طرز عمل اختیار نہ کیا جائے جس سے اصلاح کا دروازہ ہی ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے اور نہ یہ ہو کہ مباحات و مکروہات اور محرمات و محظورات کو ایک ہی صف میں جگہ دیدی جائے اور سب کے ساتھ ایک ہی رویہ روا رکھا جائے، یا وہ منکرات جن کا ناجائز ہونا فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہو