تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اس کام کو تیرے سوا دوسرا انجام دینے کی قابلیت نہیں رکھتا‘ مجبوراً مسلم نے فوج انتخاب کر کے اپنے ہمراہ لی اور تیسرے روز دمشق سے روانہ ہو گیا۔ یزید نے رخصت کرتے وقت مسلم کو نصیحت کی کہ جہاں تک ممکن ہو نرمی اور درگذر سے کام لے کر اہل مدینہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا‘ لیکن جب یقین ہو جائے کہ نرمی اور نصیحت کام نہیں آسکتی تو پھر تجھ کو اختیار کامل دیتا ہوں کہ کشت و خون اور قتل و غارت میں کمی نہ کرنا‘ مگر اس بات کا ضرور خیال رکھنا کہ علی بن حسین رضی اللہ عنھما کو کوئی آزار نہ پہنچے‘ کیوں کہ وہ میرا وفادار اور خیر خواہ ہے اور اس کا خط میرے پاس آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ مجھ کو اس شورش اور بغاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ یزید نے مسلم بن عقبہ سے یہ بھی کہا‘ کہ اگر تیری بیماری بڑھ جائے‘ اور تو فوج کی سپہ سالاری خود نہ کر سکے تو میں مناسب سمجھتا ہوں کہ حصین بن نمیر تیرا قائم مقام ہو‘ تو بھی اس کو اپنا نائب مقرر کر دے۔ اس فوج کو رخصت کرنے کے بعد اسی روز یزید نے عبیداللہ بن زیاد کے پاس ایک قاصد کو خط دے کر بھیجا‘ خط میں لکھا تھا کہ تو کوفہ سے فوج لے کر مکہ پر حملہ کر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے فتنہ کو مٹا‘ عبیداللہ بن زیاد نے جواباً لکھا کہ دو کام مجھ سے نہیں ہوں گے۔ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کا ایک کام کر چکا ہوں اب خانہ کعبہ کے ویران کرنے کا دوسرا کام مجھ سے نہ ہو گا‘ یہ کام کسی دوسرے شخص کو سپرد کرنا چاہیئے۔ مسلم بن عقبہ جب فوج لیے ہوئے مدینہ کے قریب پہنچا تو مدینہ والوں نے عبداللہ بن حنظلہ سے کہا کہ بنی امیہ جو مدینہ میں موجود ہیں یہ دمشق کی فوج آنے پر سب دشمنوں سے آملیں گے اور ہم کو اندرونی لڑائی میں مبتلا کر کے سخت نقصان پہنچائیں گے‘ مناسب یہ ہے کہ ان سب کو مسلم کے پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دیا جائے۔ عبداللہ بن حنظلہ نے کہا کہ اگر ہم نے بنی امیہ کو قتل کیا تو یزید تمام شامیوں کو اور عبیداللہ بن زیاد تمام عراقیوں کو لے کر چڑھ آئیں گے اور ہم سے ان کا قصاص طلب کریں گے‘ مناسب یہ ہے کہ ہم تمام بنی امیہ کو بلا کر ان سے اقرار لیں اور اس بات کی قسم دیں کہ وہ ہم سے نہ لڑیں گے اور ہمارے خلاف کسی قسم کی مدد حملہ آور فوج کو نہ دیں گے‘ یہ عہد و اقرار لے کر ہم ان کو مدینہ سے باہر نکال دیتے ہیں۔ سب نے اس رائے کو پسند کیا اور عبداللہ بن حنظلہ نے تمام بنی امیہ سے مذکورہ عہد و اقرار لے کر سب کو مدینہ سے رخصت کر دیا‘ بجز عبدالملک بن مروان کے کہ اس کو مدینہ میں رہنے کی آزادی حاصل رہی۔ ان لوگوں کی وادی القریٰ میں مسلم بن عقبہ کے لشکر سے ملاقات ہوئی‘ مسلم نے ان سے پوچھا کہ ہم کو مدینہ پر کس طرف سے حملہ آور ہونا چاہیئے‘ انہوں نے اپنے عہد و اقرار کا لحاظ کر کے مسلم کو جواب دینے سے انکار کیا اور اپنے عہد و اقرار کا عذر پیش کیا‘ مسلم نے پوچھا کہ تم میں کوئی ایسا بھی ہے جس نے کوئی عہد نہ کیا ہو‘ اور اس سے قسم نہ لی گئی ہو‘ انہوں نے کہا ہاں عبدالملک بن مروان ایک ایسا شخص ہے‘ اور وہ مدینہ میں موجود ہے۔ مسلم نے کہا کہ وہ نوجوان ہے ہم کو تجربہ کار بوڑھے کی ضرورت ہے‘ جو ضروریات جنگ سے واقف ہو‘ انہوں نے کہا کہ وہ نوجوان بوڑھوں سے بہت بہتر ہے‘ چنانچہ مسلم نے کسی کو بھیج کر مدینہ سے عبدالملک کو بلایا‘ اور اس کے مشوروں کو سن کر حیران رہ گیا اور ان ہی پر عامل ہوا۔