تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حکومت تھی اور عز الدولہ بن معز الدولہ اہواز میں تھا‘ سبکتگین نے عز الدولہ کی ماں اور بھائیوں کو واسط بھیج دیا تھا‘ یہ خبر سن کر عز الدولہ اپنی والدہ کی ملاقات کو واسط آیا اور اپنے چچا حسن بن بویہ المخاطب بہ رکن الدولہ کو جو فارس میں حکومت کر رہ تھا‘ سبکتگین اور ترکوں کے خلاف امداد بھیجنے کے لیے لکھا۔ رکن الدولہ نے اپنے وزیر ابو الفتح بن حمید کو ایک فوج دے کر اپنے بیٹے عضد الدولہ کے پاس اہواز میں بھیجا اور عضد الدولہ کو خط لکھا کہ تم بھی فوج لے کر اور ابو الفتح کے ساتھ مل کر اپنے چچا زاد بھائی عز الدولہ کی مدد کو پہنچو۔ ادھر سبکتگین نے خلیفہ طائع اللہ اور اس کے باپ مطیع دونوں کو ہمراہ لے کر ترکی فوج کے ساتھ واسط کی طرف کوچ کیا۔ ابو تغلب حاکم موصل نے یہ سن کر موصل سے روانہ ہو کر بغداد پر قبضہ کر لیا‘ واسط کے قریب پہنچ کر سبکتگین اور مطیع دونوں کا انتقال ہو گیا‘ ترکوں نے افتگین کو اپنا سردار بنا لیا اور واسط کا محاصرہ کر لیا‘ افتگین معز الدولہ بن بویہ کا آزاد ترکی غلام تھا‘ افتگین نے پچاس یوم تک نہایت سختی سے محاصرہ جاری رکھا۔ عضد الدولہ معہ اپنے باپ دریر ابو الفتح بن عمید کے واسط پہنچا‘ عضد الدولہ کے قریب پہنچنے کی خبر سن کر افتگین واسط سے محاصرہ اٹھا کر بغداد کی طرف روانہ ہوا اور افتگین کے قریب پہنچنے کی خبر سن کر ابو تغلب بغداد چھوڑ کر موصل کو چل دیا‘ عزالدولہ اور عضد الدولہ دونوں نے چند روز واسط میں قیام کیا‘ پھر دونوں بھائیوں نے چاروں طرف سے بغداد کا محاصرہ کر لیا اور ہر طرف سے رسد کا آنا بند کر دیا۔ اہل شہر کو سخت تکلیف ہونے لگی‘ ترکوں نے افتگین کے مکان کو لوٹ لیا اور آپس میں فتنہ و فساد برپا کرنے لگے‘ آخر افتگین خلیفہ طائع للہ کو اپنے ہمراہ لے کر اور محاصرہ توڑ کر صاف نکل گیا اور تکریت میں جا کر دم لیا۔ جمادی الاول میں ۳۶۴ھ میں عضد الدولہ اور عز الدولہ بغداد میں داخل ہوئے‘ عضد الدولہ نے ترکوں سے خط و کتابت کر کے ماہ رجب ۳۶۴ھ میں خلیفہ طائع للہ کو بغداد واپس بلا لیا اور قصر خلافت میں فروکش کر کے بیعت کی اور عز الدولہ کو گرفتار کر کے خود حکومت کرنے لگا۔ محمد بن بقیہ کو عضد الدولہ نے واسط کی حکومت پر مامور کر کے بھیج دیا‘ عز الدولہ کا بیٹا زبان نامی بصرہ میں حکومت کر رہا تھا‘ اس نے عضد الدولہ کی شکایت اور عزالدولہ کے گرفتار کر کے قید کر دینے کا حال لکھ کر رکن الدولہ کے پاس بھیج دیا‘ رکن الدولہ کو سخت ملال ہوا اور عضد الدولہ کو عتاب آموز فرمان لکھا۔ عضد الدولہ نے اس کے جواب میں اپنے باپ رکن الدولہ کو خط لکھا۔ کہ۔: ’’عزالدولہ میں ملک داری کی قابلیت اور طاقت نہ تھی‘ اگر میں دست اندازی نہ کرتا تو بنی بویہ کے قبضہ سے بغداد کی حکومت نکل جاتی‘ میں صوبہ عراق کا خراج تیس لاکھ درہم سالانہ ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں‘ اگر آپ صوبہ عراق کی نگرانی و حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہوں تو شوق سے تشریف لائیں‘ میں فارس چلا جائوں گا‘‘۔ اس خط سے صاف ظاہر ہے کہ صوبہ عراق اور بغداد دیلمی حکومت کا ماتحت تھا‘ اور دیلمیوں کا سب سے بڑا حاکم اس زمانہ میں رکن الدولہ تھا جو خراسان میں تھا اور خلیفہ بغداد صوبہ دار عراق کی نگرانی و ماتحتی کے اندر بغداد میں قیدیوں کی طرح تھا۔ آخر رکن الدولہ کے حکم کے موافق عضد الدولہ نے عز الدولہ کو قید سے نکال کر عراق کی حکومت سپرد کی اور یہ اقرار کیا کہ عراق میں خطبہ عضد الدولہ کے نام کا پڑھا