تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیس سال کے عرصہ میں یہ توقع تھی کہ خلافت عباسیہ پھر اپنی اسی صدسالہ شان و شوکت اور قوت و عظمت کو واپس لا سکتی ہے‘ لیکن ۲۴۷ھ میں متوکل علی اللہ کے قتل ہونے پر یک لخت ان کے تمام اعضاء مضحمل ہو گئے اور اس پر اس طرح بڑھاپا چھا گیا کہ عظمت رفتہ کے واپس آنے کی کوئی توقع نہ رہی؟ اس ضیعفی و پیری کے ۳۲ سال بھی ہم مطالعہ کر چکے ہیں‘ ابھی یہ ضعیف و ناتواں خلافت کئی سو برس تک زندہ رہنے والی ہے‘ حکومت اسلامیہ کے بہت سے مرکز الگ الگ قائم ہو چکے ہیں اور بہت سے قائم ہونے والے ہیں‘ بہت جلد ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ خلافت بغداد یا خلافت عباسیہ میں نام کی ایک عظمت باقی رہ جائے گی اور وہ خود کوئی طاقت نہ ہو گی۔ اندریں صورت اگر آئندہ خلافت خلفاء عباسہ کے حالات اسی تناسب اور اسی مذکورہ وسعت کے ساتھ بیان ہوئے تو تاریخ کی دلچسپی غائب ہو جائے گی اور پڑھنے والوں کے دماغ پر ایک نامناسب بوجھ پڑ جائے گا۔ لہٰذا باوجود اس کے کہ اب تک جو کچھ لکھا جا چکا ہے اس میں اختصار کو بہت مد نظر رکھا گیا ہے‘ آئندہ اس سے بھی زیادہ اختصار و ایجاز سے کام لیا جائے گا‘ خلیفہ معتمد باللہ کے عہد خلافت کا جو حال اوپر لکھا جا چکا ہے اس کی بے تربیتی خود اس امر کی شاہد ہے کہ ان کے خلفاء کے ذاتی حالات میں قابل تذکرہ اور اہم واقعات بہت ہی کم ہو سکتے ہیں‘ ہاں ان کے عہد خلافت میں دوسروں کے واقعات اور کارنامے لاتعداد ہیں‘ کیونکہ نئے نئے خاندان حکومت نمایاں ہو رہے ہیں‘ ان تمام خاندانوں اور تمام سلسلوں کا متوازی لے کر چلتا محال اور غیر ممکن ہے۔ مگر ان کی ابتداء کا کہ کس طرح خاندان عباسیہ کے تعلق سے وہ برسر اقتدار آئے تذکرہ اشارۃ کر دینا ضروری تھا تاکہ جب ان کا حال مستقل طور پر الگ شروع کیا جائے تو اس ابتدائی تذکرہ کی طرف اشارہ کیا جا سکے۔ آئندہ بھی جو جو نئے خاندان حکومت خلافت عباسیہ کے تعلق سے پیدا ہوں گے ان کا تذکرہ ان شاء اللہ تعالیٰ حسب موقعہ کیا جائے گا۔ خاندان بنو امیہ کی سب سے بڑی خطایہ ہے کہ اس نے ولی عہدی کو وراثت میں داخل کر کے حکومت اسلامی کی بربادی کا سامان کیا اور اس رسم بد کا مسلمانوں کو عادی بنایا‘ خاندان بنو عباس کی خطا بھی ان سے کسی طرح کم نہیں ہے کہ انہوں نے بنو امیہ کی ہر ایک چیز کو مٹایا اور ان کا یادگاروں کو فنا کیا مگر اس رسم بد کی خوب حفاظت کی اور مسلمانوں کی بربادی کے اس سامان کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے رہے۔ دوسری غلطی ان کہ یہ تھی کہ شروع سے اہل عرب کے مخالف اور نو مسلم ایرانیوں کے ہمدرد رہے‘ سفاح سے لے کر مامون الرشید تک بجز ایک مہدی کے ہر ایک خلیفہ نے عربوں کی طاقت کو گھٹایا اور مجوسی النسل لوگوں کو ابھارا اور آگے بڑھایا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاندان بنو عباس کو بنو امیہ کے فتوحات کے دائرہ سے آگے قدم رکھنا نصیب نہ ہوا اور دم بدم ان کی حکومت و سلطنت کا رقبہ محدود ہی ہوتا چلا گیا۔ اسلام کی حقیقی شان اور اسلامی اخلاق پر مجوسیت کا ایک ہلکا سا غبار چھا گیا‘ یہی مجوسی النسل لوگ خلفاء عباسیہ کے لیے باعث مشکلات رہے‘ مگر ذی حوصلہ عباسی خلفاء ان مشکلات پر غالب آتے رہے۔ معتصم باللہ نے مجوسیوں کی قابو یافتہ اور زبردست جماعت کے مقابلہ میں ماوراء النہر کے ترکوں کی‘ جن کا آبائی مذہب تو مجوسیت ہی تھا مگر قوم اور نسل کے کے اعتبار سے جدا اور خراسانیوں کے غیر تھے‘ ایک نئی جماعت تیار کی۔