تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رات میں صرف دو نمازیں رکھی تھیں‘ یعنی دو رکعت قبل طلوع آفتاب‘ اور دو رکعت بعد غروب آفتاب‘ وہ کہتا تھا کہ بعض سورتیں محمد بن الحنفیہ پر نازل ہوئی ہیں‘ جمعہ کے بجائے دو شنبہ کے دن ہفتہ وہ بابرکت سمجھتا تھا اور اس دن کوئی کام نہ کرتا تھا‘ سال بھر میں دو روزے فرض سمجھتا تھا‘ نبیذ کو حرام اور شراب کو حلال کہتا تھا‘ غسل جنابت کو غیر ضروری سمجھتا تھا‘ بعض جانوروں کو اس نے حلال اور بعض کو حرام قرار دیا تھا‘ جو شخص قرامطہ کا مخالف ہو اس کا قتل کرنا واجب ٹھہرایا تھا‘ اپنا لقب اس نے قائم بالحق رکھا تھا۔ زنگیوں کے سردار خبیث اور بہبود سے اس نے اپنے اس نئے مذہب کے متعلق گفتگو کی تھی اور ان کو اپنا ہم خیال بنانا چاہا تھا‘ مگر انہوں نے اس طرف کوئی التفات نہیں کیا‘ ان کی بربادی کے آٹھ برس بعد اس نے کوفہ میں اپنے عقائد کی اشاعت شروع کی اور بہت سے لوگ اس کے معتقد ہونے لگے‘ یہ رنگ دیکھ کر کوفہ کے عامل نے اس کو گرفتار کر کے جیل خانہ بھیج دیا۔ اتفاقاً جیل خانہ کے محافظوں نے غفلت کی اور قرمط وہاں سے نکل بھاگا‘ اس کے متبعین نے یہ مشہور کر دیا کہ قرمط کو جیل خانہ آنے جانے سے نہیں روک سکتا۔ غرض رفتہ رفتہ اس مذہب کا چرچا دور دراز تک ہونے لگا اور لوگ اس میں شریک ہوتے گئے‘ آج کل ہم اپنے زمانہ کے گور پرستوں‘ پیر پرستوں کو دیکھ دیکھ کر تعجب کرتے ہیں کہ کس طرح وہ جاہل‘ بے نماز‘ چانڈو باز لوگوں کو اللہ تعالیٰ رسیدہ اور ولی کامل سمجھ کر ان کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں اور ان کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو ضروری سمجھتے ہیں‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے احمقوں کی ایک جماعت ہر ایک زمانے میں موجود رہتی ہے۔ ہمارے شہر نجیب آباد میں ایک شخص رہتا ہے شہر کی پیشہ ور فاحشہ عورتیں جو ناچنے گانے کا پیشہ کرتی ہیں ہر جمعرات کو اس کے مکان میں آ کر اپنا گانا سناتی ہیں اور آوارہ مزاج‘ ناہموار نوجوانوں کو وہاں اس حیا سوز و اخلاق کش جلسہ میں بد چلنی کی تحریک کا موقعہ ملتا رہتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اور رسول کی شان میں گستاخانہ الفاظ اعلانیہ وہ زبان سے نکالتا رہتا ہے‘ نماز اور روزہ کا تو بھلا ذکر ہی کہاں ہو سکتا ہے‘ اس شخص کو کثیر التعداد لوگوں نے خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے‘ اس کی خدمت میں مؤدبانہ اپنی حاجات عرض کرتے ہیں اور قیمتی تحف و ہدایا سے اس کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لذیذ کھانے اور نایاب چیزیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان معتقدین کے زمرہ میں بڑے بڑے اہل کار‘ ڈاکڑ‘ تاجر اور تعلیم یافتہ لوگ شامل ہوتے ہیں‘ ہر چند کوشش کی گئی کہ کوئی ایسی بات معلوم ہو جس کو اس عقیدت کا سبب قرار دیا جائے مگر کوئی بات ثابت نہ ہو سکی‘ لہٰذا مجبوراً تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسانوں میں کچھ تعداد خدائے تعالیٰ ایسی بھی پیدا کرتا ہے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے نابینائی کے شیدا اور دماغ ہوتے ہوئے تہی مغزی پر مفتون ہوتے ہیں‘ یہی لوگ ہیں جو آج کل بھی ہر جگہ موجود نظر آتے ہیں اور یہی لوگ تھے جنہوں نے قرامطہ۱؎ کے نوایجاد مذہب کو قبول کیا اور انہی لوگوں کی موجودگی نے ہمیشہ سیاہ قلب لوگوں کو اپنی اپنی دوکانداریاں چلانے کی جرأت دلائی اور دین اسلام کے مقابلہ میں ہمیشہ مشکلات پیدا کر کے سچے مسلمانوں کے لیے جہاد سیفی و لسانی کا موقعہ بہم پہنچایا۔ لہٰذا ان لوگوں کے وجود کو بھی حکمت الٰہی کے خلاف ہرگز نہیں سمجھنا چاہیئے‘ اگر یہ