تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہرثمہ سے کہہ کر ان کے بڑے بڑے روزینے مقرر کرائے‘ جب امین مقتول ہوا تو ہرثمہ نے بنو شیبان کے روزینے دینے سے انکار کیا‘ ابوالسرایا نے ناراض ہو کر ہرثمہ سے حج کی اجازت چاہی‘ ہرثمہ نے اجازت دے دی اور بیس ہزار درہم سفر خرچ عطا کیا‘ ابوالسرایا نے یہ بیس ہزار درہم اپنے ہمراہیوں کو تقسیم کر دئیے اور کہا کہ تم لوگ بھی ایک ایک دو دو کر کے میرے پاس چلے آنا‘ چنانچہ ابوالسرایا ہرثمہ سے رخصت ہو کر بظاہر حج کے ارادے سے روانہ ہوا‘ راستے میں قیام کر دیا اور وہیں دو سو آدمی آ آ کر اس کے پاس جمع ہو گئے‘ ان لوگوں کو مرتب کر کے ابوالسرایا نے عین التمر پر حملہ کیا اور وہاں کے عاملوں کو گرفتار کر کے عین التمر کو خوب لوٹا اور مال غنیمت اپنے ہمراہیوں کو تقسیم کر دیا‘ پھر اس نے اپنی لوٹ مار کے سلسلے کو جاری رکھ کر کئی مقامات سے سرکاری خزانے لوٹے۔ ہرثمہ نے اس کی سرکوبی و گرفتاری کے لیے فوج بھیجی‘ ابوالسرایا نے اس کو شکست دے کر بھگا دیا‘ اس کے بقیہ ہمراہی بھی اس سے آ ملے اور اس کی جمعیت بڑھ گئی‘ اس کے بعد ابوالسرایا نے وقوقا کے عامل کو شکست دے کر وہاں کا خزانہ لوٹا‘ پھر انبار کا قصد کیا اور وہاں کے عامل ابراہیم شروی کو قتل کر کے انبار کو خوب لوٹا اور مال غنیمت اپنے ہمراہیوں کو تقسیم کر کے چل دیا‘ انبار سے روانہ ہو کر طوق بن مالک تغلبی کے پاس گیا‘ وہاں سے رقہ کی جانب روانہ ہوا‘ وہاں اتفاقاً محمد بن ابراہیم بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن حسن مثنی بن علی سے ملاقات ہو گئی جو مدعی خلافت بن کر اٹھے تھے اور اپنے گروہ کو لے کر رقہ سے نکلے تھے‘ ان کے باپ ابراہیم طباطبا کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے‘ اس لیے یہ ابن طباطبا مشہور تھے۔ اب یہ وہ زمانہ تھا کہ حسن بن سہل عراق و حجاز و یمن وغیرہ کا حاکم مقرر ہو کر بغداد میں آ چکا تھا اور عام طور پر اہل عرب‘ اہل عجم کے اقتدار کو خطرے اور نفرت کی نظر سے دیکھ رہے تھے اور مامون کی خلافت کو اپنے لیے مضر سمجھنے لگے تھے‘۱؎ علوی لوگ جا بجا اس حالت سے فائدہ اٹھانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ادھر نصر بن شیث نے اعلان کر دیا کہ میں خاندان عباسیہ کا مخالف اور دشمن نہیں ہوں بلکہ موجودہ حکومت کی اس لیے مخالفت کر رہا ہوں کہ اس حکومت نے اہل عجم کو اہل عرب پر مقدم کر دیا ہے‘ اس اعلان کا یہ اثر تھا کہ نصر بن شیث کے مقابلہ میں مامون کے عرب سرداران فوج کی سرگرمیاں سست پڑ گئی تھیں۔ ہرثمہ کو بھی اسی زمانہ میں حسن بن سہل نے نا خوش ہو کر خراسان کی جانب رخصت کیا تھا‘ ابوالسرایا نے محمد بن ابراہیم (ابن طباطبا) کے وجود کو بہت غنیمت سمجھا اور فوراً ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی‘ ابن طباطبا نے ابوالسرایا کو براہ دریا کوفہ کی جانب روانہ کیا اور خود براہ خشکی کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ قرار داد کے موافق ۱۵ جمادی الثانی ۱۹۹ھ کو ایک طرف سے ابوالسرایا اور دوسری طرف سے ابن طباطبا کوفہ میں داخل ہوئے اور قصر عباس بن موسیٰ بن عیسیٰ کو کہ یہی گورنر کی قیام گاہ تھا اور یہیں شاہی خزانہ بھی تھا لوٹ لیا‘ تمام شہر پر قبضہ حاصل ہو گیا اور اہل کوفہ نے ابن طباطبا کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ حسن بن سہل نے کوفہ پر ابوالسرایا اور ابن طباطبا کے قبضہ کا حال سن کر زہیر بن مسیب کو دس ہزار کی جمعیت سے کوفہ کی جانب روانہ کیا‘ ابوالسرایا اور ابن طباطبا نے کوفہ سے نکل کر زہیر بن مسیب کا مقابلہ کیا‘ زہیر کی فوج کو شکست ہوئی‘ ابوالسرایا