تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مگر اس کو موت نے زیادہ مہلت نہ دی‘ امین کی خلافت میں عربوں کا مرکز قوت امین‘ اور خراسانیوں کا مرکز قوت مامون بن گیا‘ یعنی امین و مامون کے ذریعہ مجوسی النسل مسلمان اور عربی النسل گروہوں کا مقابلہ ہوا‘ امین چونکہ ذاتی طور پر ناقابل اور مامون اس کی نسبت زیادہ سمجھ دار تھا‘ لہٰذا عربی گروہ کو شکست ہوئی اور مجوسی النسل لوگ حکومت اسلامیہ کے مالک بن گئے۔ انہیں خراسانیوں اور مجوسی النسل لوگوں نے مامون کو اپنا بنا کر اور سلطنت کی مشین کو اپنے قبضے میں لے کر چاہا کہ مامون کے بعد حکومت علویوں کے سپرد کر دیں‘ مگر قدرتی طور پر ایسے اسباب پیش آ گئے کہ وہ کامیاب نہ ہو سکے اور حکومت و خلافت عباسیہ خاندان ہی میں رہی‘ آخر انہیں خراسانیوں اور نو مسلم ترکوں نے زیادہ حوصلہ مند بن کر خود خلافت اسلامیہ کے تکے بوٹی کر کے الگ الگ اپنی حکومتیں قائم کیں۔ اس کی تفصیل آئندہ ابواب میں آنے والی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ خلافت اسلامیہ میں باپ کے بعد بیٹے کے ولی عہد ہونے اور وراثت کے قائم ہونے کی لعنت تمام مفاسد‘ تمام مصائب‘ تمام معائب کی بنیاد ہے۔ اور اسی بدعت نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور حکومت اسلامیہ کے روشن و خوبصورت چہرے کو ہمیشہ گرد آلود رکھا‘ امین کی خلافت کے زمانہ کی بدتمیزیاں بھی اسی وراثت خلافت کی لعنت کا نتیجہ تھیں۔ ۱؎ عراق‘ خراسان اور ایران کے علاقے اس وقت سبائی گروہ کا گڑھ تھے۔ یہاں سے اس قدر سازشوں نے جنم لیا کہ خلافت اسلامیہ کا نظام مسلسل غیر مستحکم ہوتا چلا گیا اور شورشوں اور لڑائیوں نے خوب زور پکڑا۔ نتیجتاً خلفاء و حکام نے جو توجہ اور تیاری غیر مسلموں سے جہاد و قتال کرنے کے لیے کرنی تھی‘ وہ ان خانہ جنگیوں نے سمیٹ لی۔ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ سیدنا علی ضض‘ سیدنا حسن ضض‘ امین الرشید‘ تین خلیفہ ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ہاشمی تھے‘ یعنی ان ہر سہ خلفاء کی مائیں بھی ہاشمیہ تھیں اور تینوں کے لیے خلافت بہ حسب ظاہر راس نہ آئی‘ یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تمام عہد خلافت اندرونی جھگڑوں اور مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں میں گذرا‘ اور انجام کار ایک شقی نے ان کو شہید کر دیا‘ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت کو خود چھوڑ دیا‘ تاہم وہ بھی زہر سے شہید ہوئے‘ ۱؎امین کا بھی تمام زمانہ خلافت لڑائی جھگڑوں میں بسر ہوا اور وہ بھی قتل کیا گیا۔ ---