تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مبتلا ہے‘ بنو امیہ نے اگر حکومت اسلامی کو اپنی ہی قوم اور خاندان میں باقی رکھنا چاہا تو یہ ان کی غلطی تھی‘ بنوعباس‘ بنوہاشم اگر اس کو اپنا خاندانی حق سمجھتے تھے تو یہ ان کی بھی (غلطی و نا انصافی تھی) مگر چونکہ دنیا میں عام طور پر لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں لہٰذا سلطنت اور حکومت میں بھی حق وراثت کو جاری سمجھا جاتا ہے‘ اس بنا پر جو شخص کسی غاصب سلطنت سے اپنا حق سلطنت واپس چھینتا ہے وہ اکثر قتل و تشدد سے کام لیا کرتا ہے‘ لیکن اس قتل و تشدد کو بنوعباس نے بنو امیہ کے حق میں جس طرح روا رکھا ہے اس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ ہاں تاریخی زمانہ سے گزر کر اگر نیم تاریخی حکایات کو قابل اعتنا سمجھا جائے تو بخت نصر نے بنی اسرائیل کے قتل کرنے میں بڑی سفاکی و بیباکی سے کام لیا تھا اور بنی اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہا تھا‘ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی قوم آج تک دنیا میں موجود ہے‘ اس سے بھی بڑھ کر ہندوستان میں آریوں نے غیر آریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی مگر کوہ ہمالیہ وبندہیاچل کے جنگلوں اور راجپوتانہ کے ریگستانوں نے غیر آریوں کی نسلوں کو اپنے آغوش میں چھپائے رکھا اور ہندوئوں کی شودر قوموں کی صورت میں وہ آج بھی ہندوستان کی آبادی کا ایک قابل تذکرہ حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے آریہ بھی ایرانی و خراسان لوگ تھے‘ عباسیوں کے خراسانی سپہ سالار بھی بنوامیہ کے قتل و غارت میں عباسیوں کو ایسے مظالم اور ایسے تشدد پر آمادہ کر سکے کہ ہندوستان کے غیر آریوں کی مظلومی کے افسانے درست نظر آنے لگے۔ دنیا کی خفیہ انجمنوں کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان خفیہ سازشوں کو کامیاب بنانے والے حد سے زیادہ قتل و خونریزی اور مظالم و بے رحمی کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ خاندان بنو امیہ سے خلافت اسلامیہ کو نکالنا کوئی جرم نہ تھا لیکن خاندان بنو امیہ سے خلافت اسلامیہ کو نکال کر ایک دوسرے خاندان کو اسی طرح خلافت اسلامیہ کے سپرد کر دینا ہرگز کوئی خوبی کی بات نہ تھی‘ اسلام اور عالم اسلام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا لہٰذا بنوعباس کو نہایت ہی قابل شرم خونریزی اور قتل و غارت کا ارتکاب کرنا پڑا۔ ابومسلم اور قحطبہ بن شبیب اور دوسرے نقباء اہل بیت نے خراسان کے شہروں میں جس قدر قتل عام کا بازار گرم کیا اس کا کچھ تھوڑا تھوڑا تذکرہ اوپر کے صفحات میں آچکا ہے‘ امام ابراہیم نے خود ابومسلم کو اپنے آخری خط میں تاکیدی طور پر لکھا تھا کہ خراسان میں کسی عربی بولنے والے کو زندہ نہ رکھنا‘ اس سے بھی ان کا مدعا یہی تھا کہ بنو امیہ کے طرفدار لوگ خراسان میں وہی عربی قبائل تھے جو فاتحانہ خراسان میں سکونت پذیر تھے‘ جبکہ باشندگان خراسان کو جو نو مسلم تھے وہ سب کے سب دعوت عباسیہ کے معمول بن سکتے تھے۔ لہٰذا ابو مسلم نے اموی اثر و رسوخ اور باقیات کو ختم کرنے کے لیے عرب لوگ قتل کرائے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک خراسان میں جو کثیرالتعداد عربی قبائل پہنچ کر اس ملک کی زبان‘ معاشرت‘ تمدن کو عربی بنانے میں کامیابی حاصل کر رہے تھے سب کے سب قتل ہو گئے اور عربی عنصر جو تمام ملک کو اپنا ہم رنگ بنا رہا تھا یک لخت مغلوب و بے اثر و ناپید ہو گیا‘ جس کی وجہ سے ایرانی زبان و تمدن‘ ایرانی معاشرت‘ ایرانی اخلاق