تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابوالعباس عبداللہ سفاح کی کوفہ کی موجودگی نے لوگوں کی توجہ اور ہمدردی کو اپنی طرف منعطف کر لیا۔ آخر ۱۲؍ ربیع الاول بروز جمعہ ۱۳۲ھ ۳۰؍ اکتوبر ۷۲۹ء کو لوگوں نے مجتمع ہو کر ابوالعباس عبداللہ سفاح کو اس کی جائے قیام سے ہمراہ لیا اور دارالامارۃ میں داخل ہوئے‘ عبداللہ سفاح دارالامارۃ سے جامع مسجد میں آیا‘ خطبہ دیا نماز جمعہ پڑھائی اور نماز جمعہ کے بعد پھر منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا اور لوگوں سے بیعت لی‘ یہ خطبہ نہایت فصیح و نصیح تھا‘ اس میں اپنے آپ کو مستحق خلافت ثابت کیا اور لوگوں کے وظائف بڑھانے کا وعدہ کیا‘ اہل کوفہ کی ستائش کی۔ اس خطبہ کے بعد عبداللہ سفاح کے چچا دائود نے منبر پر چڑھ کر تقریر کی اور بنوعباس کی خلافت کے متعلق مناسب الفاظ بیان کر کے بنوامیہ کی مذمت کی اور لوگوں سے بیان کیا کہ آج امیرالمئومنین عبداللہ سفاح کسی قدر بخار و اعضاء شکنی کی تکلیف میں مبتلا ہیں اس لیے زیادہ بیان نہ کر سکے‘ آپ سب لوگ ان کے لیے دعا کریں۔ اس کے بعد ابوالعباس عبداللہ سفاح قصر امارت کی طرف روانہ ہوا اور اس کا بھائی ابوجعفر منصور مسجد میں بیٹھا ہوا رات تک لوگوں سے بیعت لیتا رہا‘ ابوالعباس عبداللہ سفاح بیعت خلافت لینے کے بعد قصر امارت میں گیا‘ پھر وہاں سے ابوسلمہ کے خیمہ میں جا کر اس سے ملاقات کی‘ ابوسلمہ نے بھی بیعت تو کر لی مگر وہ دل سے اس بیعت اور عباسیوں کی خلافت پر رضا مند نہ تھا۔ عبداللہ سفاح نے مضافات کوفہ کی نیابت اپنے چچا دائود کو دی اور اپنے دوسرے چچا عبداللہ بن علی کو ابوعون کی کمک کے لیے روانہ کیا‘ اور اپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ کو حسن بن قحطبہ کی مدد کے لیے بھیجا جو واسط کا محاصرہ کئے ہوئے پڑا تھا اور ابن ہبیرہ کو محصور کر رکھا تھا‘ اور یمیمی بن جعفر بن تمام بن عباس کو حمید بن قحطبہ کی امداد پر مدائن کی طرف روانہ کیا‘ اسی طرح سرداروں کو ہر طرف متعین و مامور کیا۔ ابومسلم خراسان ہی میں موجود تھا اور وہ خراسان کو جلد از جلد دشمنوں سے صاف کر رہا تھا‘ عبداللہ سفاح کوفہ میں خلیفہ ہو کر ہر ایک اہم معاملہ میں ابومسلم کا مشورہ طلب کرتا تھا اور جیسے ابومسلم لکھتا تھا اسی کے موافق عمل درآمد کرتا تھا۔ یہ زمانہ تمام عالم اسلامی میں بڑا نازک اور خطرناک زمانہ تھا‘ ہر ایک ملک اور ہر ایک صوبہ میں جابجا لڑائیاں اور فسادات برپا تھے‘ واسط میں ابن ہبیرہ کو مغلوب کرنا آسان نہ تھا‘ ادھر مروان بن محمد اموی خلیفہ شام میں موجود تھا‘ حجاز میں بھی طوائف الملوکی برپا تھی‘ مصر کی حالت بھی خراب تھی‘ اندلس میں عباسی تحریک کا کوئی مطلق اثر نہ تھا‘ جزیرہ و آرمینیا میں اموی سردار موجود تھے اور عباسیوں کے خلاف تحریک پر آمادہ ہوگئے تھے‘ خراسان بھی پورے طور پر قابو میں نہ آیا تھا‘ بصرہ میں بھی عباسی حکومت قائم نہ ہو سکتی تھی‘ حضر موت و یمامہ و یمن کی بھی یہی حالت تھی۔ عبداللہ سفاح کے خلیفہ ہوتے ہی آل ابی طالب یعنی علویوں میں جو اب تک شریک کار تھے ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی تھی اور وہ اس نتیجہ پر حیران اور ناراض تھے کیونکہ ان کو اپنی خلافت کی توقع تھی‘ عباسیوں کی اس کامیابی میں سب سے بڑا دخل محمد بن حنفیہ کے بیٹے ابوہشام عبداللہ کی اس وصیت کو ہے جو انہوں نے مرتے وقت محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس کے حق میں کی تھی‘ اس وصیت کی وجہ سے شیعوں کے فرقہ