تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر دمشق کی طرف روانہ ہوئے‘ یزیدبن ولید نے سلیمان بن ہشام بن عبدالملک کو فوج دے کر مقابلے کے لیے روانہ کیا‘ اول اہل حمص کے سامنے صلح کی درخواست پیش کی گئی‘ لیکن جب وہ نہ مانے تو لڑائی شروع ہوئی‘ نتیجہ یہ ہوا کہ یزید بن خالد گرفتار ہو کر قید ہوا اور اہل حمص بہت سے مارے گئے‘ جو باقی رہے وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ یہ خبر سن کر اہل فلسطین نے بھی بغاوت کی اور یزید بن سلیمان بن عبدالملک کو اپنا سردار بنایا‘اہل اردن نے سنا تو محمد بن عبدالملک کو اپنا بادشاہ بنا لیا اور اہل فلسطین کے ساتھ شریک ہو گئے اور دونوں جگہ کی فوجیں مل کر دمشق کی طرف بڑھیں‘ان تمام مقامات کے لوگوں کو یزید بن ولید نے پہلے اپنا ہم خیال بنا لیا تھا‘ لیکن خلیفہ کے قتل کا حادثہ تھا لٰہذا ان لوگوں کے دل میں یکایک مقتول خلیفہ کی ہمدردی اور موجودہ خلیفہ کی نفرت کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا‘یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے‘ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قاتل ڈاکو کو جب پھانسی کی سزا دی جاتی ہے تو اگرچہ معقول طور پر ہر شخص اس کو پھانسی کا مستحق یقین کرتا ہے لیکن جب اس کو پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس وقت تمام ہمدردی اسی کے ساتھ شامل حال ہو جاتی ہے اور وہ نفرت جواس کی نسبت پہلے دل میں موجود تھی کافور ہو جاتی ہے‘اس لشکر کا حال سن کر یزید نے سلیمان بن ہشام کو ایک زبردست لشکر کے ساتھ ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے مامور کیا‘چنانچہ سلیمان نے ان سب کو شکست دے کر خلیفہ وقت کی بیعت و اطاعت پر آمادہ کر دیا۔ ملک شام کے مذکورہ فسادات کو فرو کرنے کے بعد یزید نے یوسف بن عمر کو عراق و خراسان کی امارت سے معزول کر کے اس کی جگہ منصور بن جمہور کو عراق و خراسان کا حاکم مقرر کیا‘ یوسف نے منصور کو باقاعدہ اپنی امارت کا چارج نہیں دیا بلکہ عراق سے دمشق کی جانب پوشیدہ طور پر روانہ ہوا‘ دمشق کے قریب پہنچا تھا‘ کہ یزید بن ولید نے گرفتار کراکر قید کر دیا‘اوراسی حالت میں مقتول ہوا‘ منصور بن جمہور نے کوفہ پہنچ کر یوسف کے زمانے کے قیدیوں کو رہا کیا اور اپنی طرف سے خراسان کی گورنری پر اپنے بھائی کو بھیجا وہاں نصر بن سیار نے خراسان میں اس کو داخلہ نہیں دیا‘ابھی یہ جھگڑا طے نہیں ہونے پایا تھا اور منصور بن جمہور کو کوفہ میں آئے ہوئے دو مہینے بھی نہ گذرے تھے کہ یزید بن ولید نے منصور کو معزول کر کے اس کی جگہ عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز کو عراق کی امارت پر روانہ کر دیا۔ منصور بن جمہور عراق کی امارت عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز کے سپرد کر کے شام کی طرف روانہ ہوا‘ عبداللہ بن عمر نے خراسان کی حکومت پر باقاعدہ طور پر نصر بن سیار کو مقرر فرمایا‘ ان دنوں یمامہ کی ولایت بھی عراق کے صوبہ سے متعلق تھی‘ کبھی یمامہ حجاز میں شامل کر دیا جاتا تھا‘ کبھی عراق میں‘ یوسف بن عمر کے زمانے سے اہل یمامہ علی بن مہاجر حاکم یمامہ کو نکال کر اپنی خود مختاری کا اعلان کر چکے تھے‘ ابھی تک وہ بدستور اپنی خود مختاری پر قائم تھے اور کوئی بندوبست اس علاقہ پر قبضہ قائم کرنے کے لیے نہ ہو سکا تھا۔ عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز نے عراق کی امارت اپنے ہاتھ میں لے کر جب نصر بن سیار کو خراسان کا حاکم اپنی طرف سے مقرر کیا تو وہاں جدیع بن علی کرمانی ازدی نے نصر بن سیار سے بغاوت و سرکشی اختیار کی ‘ جدیع بن علی اصل میں ازدی تھا لیکن چونکہ وہ کرمان میں پیدا ہوا تھا اس لیے کرمانی مشہور تھا‘ وہ یہ دیکھ کر کہ نصر بن سیار جو پہلے خراسان کا خود مختار حاکم تھا اب کوفہ کے گورنر کی طرف سے نامزد و مامور ہو