تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض احادیث کو خاص طور پر شائع کیا جاتا تھا‘ بعض روایات مصلحتاً وضع بھی کر لی گئی تھیں‘ بعض روایات میں کچھ فقرات اضافہ کر دیئے گئے تھے‘ جن سب کا منشا یہ تھا کہ لوگوں کو اس بات کا کامل یقین دلایا جائے‘ کہ خلافت اسلامیہ بنو عباس میں ضرور آئے گی اور بہت جلد آئے گی‘ اس کے علاوہ بنو ہاشم کا حق دارخلافت ہونا اور بنو امیہ کا ناجائز طور پر برسر حکومت آجانا چونکہ پہلے ہی سے انقلابی جماعتوں کے لیے بطور ایک زبردست ہتھیار کے استعمال ہو رہا تھا لہٰذا ان باتوں سے بھی خوب فائدہ اٹھایا گیا‘ اس کام کے لیے خاص خاص قابل آدمی بطور مشنری مصروف کار تھے اور بنو امیہ اپنے زعم حکومت میں ایسی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے‘ نہ ان کے انسداد کی طرف متوجہ ہونے کو ضروری سمجھتے تھے‘ نہ اس قسم کی خفیہ سازشوں کی ٹوہ اور تلاش میں رہنا پسند کرتے تھے۔ فاطمیوں اور علویوں نے بھی عباسیوں کے متوازی اس قسم کی کوششوں اور سازشوں کا سلسلہ پہلے ہی سے باقاعدہ جاری کر رکھا تھا‘ اور یہ تمام سلسلے خراسان ہی میں نشونما پا رہے تھے کیونکہ خراسان ہی کی آب وہوا ایسی کوششوں اور سازشوں کے لیے زیادہ موافق وموزوں تھی‘ خراسان میں بنی ازد کے نامور قبیلے کا سردار حرث بن شریح خاص طور پر علویوں اور فاطمیوں کا شیدائی تھا‘ چنانچہ ۱۱۶ھ میں اس نے سیاہ کپڑے پہنے اور لوگوں کو اتباع کتاب وسنت اور بیعت امام رضا کی دعوت دی اور فاریاب میں پہنچ کر اس کام کو شروع کیا‘ چار ہزار کی جانباز جمعیت اس کے گرد جمع ہوگئی‘ یہ اس فوج کو لے کر بلخ کی طرف متوجہ ہوا‘ بلخ میں ان دنوں نصر بن سیار حاکم تھا‘ وہ دس ہزار فوج لے کر مقابلہ کو نکلا۔ مگر شکست کھائی۔ حرث بن شریح بلخ پر قابض ومتصرف ہو کر اور اپنی طرف سے سلیمان بن عبداللہ بن حازم کو بلخ میں مامور کر کے جرجان کی طرف بڑھا‘ بڑی آسانی سے جرجان پر بھی قابض ومتصرف ہو کر مرو کی طرف متوجہ ہوا‘ مرو میں عاصم بن عبداللہ نے لوگوں کو جمع کر کے مقابلہ پر آمادہ کرنا چاہا‘ لیکن یہاں بھی پہلے ہی سے حرث بن شریح کے ساتھ لوگوں کی خط وکتابت جاری تھی۔ حرث بن شریح کی جمعیت ساٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی جس میں ازد وتمیم کے نامی گرامی سردار اور فاریاب و طالقان کے زمین دار سب شامل تھے‘ ادھر عاصم بن عبداللہ نے بھی مقابلہ کے لیے تمام ممکن کوششوں سے کام لیا‘ حرث بن شریح نے مرو پر نہایت جرئات کے ساتھ حملہ کیا‘ مگر عین مقابلے کے وقت اس کی فوج میں سے چار ہزار آدمی ازد وتمیم کے کٹ کر عاصم کی فوج میں آملے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حرث بن شریح کے ہمرائیوں کی جرأت ودلیری اور جوش وخروش میں کسی قدر فرق آگیا‘ مگر لڑائی بڑے زور شور کی ہوئی‘ نتیجہ یہ ہوا کہ حرث بن شریح شکست کھا کر پیچھے کو لوٹا اور عاصم نے اس کا تعاقب نہ کیا‘ عاصم نے منازل رہبان کے قریب پہنچ کر اپنا خیمہ نصب کیا تو اس کے پاس کل تین ہزار سوار آکر جمع ہوئے۔ حرث بن شریح نے اس کے بعد اپنی حالت کو پھر درست کر لیا اور وہ اپنے مقبوضات کو خراسان میں تیزی سے ترقی دیتا رہا۔ ان حالات سے مطلع ہو کر دمشق سے ہشام بن عبدالملک نے عاصم سے جواب طلب کیا تو عاصم نے لکھا‘ کہ خراسان کا تعلق براہ راست دمشق یعنی دربار خلافت سے ہے‘ اس لیے اطلاعات کے جانے اور بوقت ضرورت مدد کے آنے میں توقف ہوتا ہے‘ مناسب یہ ہے کہ