تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شہروں کو واپس چل دئیے‘ خالد بن عبداللہ نے ہر چند ان لوگوں کو سمجھایا اور ڈرایا‘ لیکن کوئی بھی مہلب کی طرف واپس جانے پر آمادہ نہ ہوا۔ ادھر خراسان کی یہ حالت تھی‘ کہ عبداللہ بن حازم کے قتل کے بعد سے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے‘ ترکستان و مغولستان کے بادشاہ رتبیل نامی نے خراسان کی سرحدوں پر فوج کشی شروع کر دی تھی‘ اور عبداللہ بن حازم کے بیٹے موسیٰ بن عبداللہ بن حازم نے اپنے باپ کے ہمرائیوں کو لے کر اور مرو سے فرار ہو کر قلعہ ترمذ میں اقامت اختیار کی‘ اور اپنی ایک خود مختار ریاست قائم کر لینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ موسیٰ بن عبداللہ ایک طرف ترکوں سے لڑ کر کامیابی حاصل کرتا تھا‘ تو دوسری طرف عبدالملک کے مقرر کئے ہوئے عامل خراسان سے برسر پیکار رہتا تھا‘ خراسان میں بکیر بن وشاح عامل تھا‘ اس کو معزول کر کے عبدالملک نے امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید کو خراسان کا عامل بنا کر بھیجا‘ امیہ بن عبداللہ کے پہنچنے پر بکیر بن و شاح خراسان ہی میں بعد معزولی مقیم رہا‘ اور امیہ بن عبداللہ نے اس کو مرو کا کوتوال شہر بنا دیا‘ امیہ نے خراسان پہنچ کر رتبیل بادشاہ ترکستان پر چڑھائی کی‘ اور اس کو مجبور کر کے اس شرط پر صلح کی‘ کہ آئندہ وہ مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہو گا۔ امیہ شاہ ترکستان سے یہ صلح نامہ کئے ہوئے بلخ سے مرو کی طرف واپس آرہا تھا‘ کہ موسیٰ بن عبداللہ بن حازم نے اس پر حملہ کیا‘ مگر وہ بہزار خرابی اس حملہ سے بچ کر مرو کے قریب پہنچ گیا اور موسیٰ بن عبداللہ واپس چلا گیا‘ مرو کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ بکیر بن و شاح مرو پر قابض و متصرف ہو کر بر سر مقابلہ ہے‘ یہاں بھی معرکہ ہوا اور بکیر بن و شاح شہر کی مضبوطی کر کے بیٹھ گیا‘ آخر چند روز کے بعد صلح ہوئی اور امیہ بن عبداللہ نے بکیر بن و شاح کو خراسان کے کسی صوبہ کی حکومت دینے کا وعدہ کر کے مرو کو اس کے قبضہ سے نکالا۔ ادھر دار ہرمز میں مہلب بن ابی صفرہ اور عبدالرحمن بن مخنف بہت تھوڑی تھوڑی جمعیت کے ساتھ خوارج سے بر سر پیکار تھے اور فوج کے واپس چلے جانے سے ان کی حالت بہت نازک ہو رہی تھی‘ ان تمام حالات سے واقف و مطلع ہو کر عبدالملک بن مروان نے یہی مناسب سمجھا‘ کہ حجاج بن یوسف ثقفی کو حجاز کی گورنری سے تبدیل کر کے عراق کی حکومت پر مامور کرے‘ چنانچہ ۷۵ھ میں حجاج کو عبدالملک نے بصرہ و کوفہ کی سند حکومت عطا کر کے کوفہ کی طرف روانہ کیا‘ حجاج ماہ رمضان ۷۵ھ میں کوفہ میں داخل ہوا‘ جامع مسجد میں جا کر ممبر پر بیٹھا‘ اور لوگوں کو مجتمع ہونے کا حکم دیا۔ کوفہ کے لوگ عموماً گستاخ اور اپنے امیروں اور حاکموں کی توہین و گستاخی کرنے کے عادی تھے‘ چنانچہ و سنگریزے مٹھیوں میں لے کر آئے کہ دوران خطبہ میں سنگریزے اس جدید امیر کی طرف پھینکیں گے‘ لیکن جب حجاج نے تقریر شروع کی تو اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگ سہم گئے اور ڈر کے مارے وہ سنگریزے ان کے ہاتھوں سے گر گئے‘ حجاج نے اپنی تقریر میں کہا کہ: ’’بہت سے عمامے اور ڈاڑھیاں یہاں نظر آرہی ہیں کہ اب وہ خون میں تر بتر ہونے والی ہیں۔ بہت سے سراس مجمع میں نظر آرہے ہیں‘ کہ ان کے کٹنے کا زمانہ قریب آگیا ہے‘ امیر المومنین عبدالملک نے اپنے ترکش کے تمام تیروں کو دیکھا ‘جو ان تیروں میں سب سے زیادہ سخت اور کاری تھا وہ تم پر چلایا‘ یعنی مجھ کو تم پر حاکم بنا کر بھیجا‘ میں