دلاتا ہے ، اس کی جبر و قہر کی صفت انسان کو جرائم سے باز رکھتی ہے ، خدا تک بلاواسطہ رسائی اور خدا سے نسبتِ بندگی عظمتِ انسانی میں اضافہ کرتی ہے۔ واقعہ ہے کہ اسلام کا تصورِ توحید ایک انقلابی تصور ہے ، جس کا فکر و خیال اور قول و عمل سے گہرا رشتہ ہے ، شریعت میں جتنے اعمال ہیں غور کیا جائے تو وہ سب اسی عقیدے کی بازگشت اور اسی کے اقرار و اعتراف کی تجدید سے عبارت ہے ، نماز خدا کی کبریائی سے شروع ہوتی ہے اور اسی کی توحید کی شہادت پر ختم ہوتی ہے ۔ روزہ اسی کے حکم کی تعمیل ہے اور بندہ جب اسے مکمل کرتا ہے تو کہتا ہے کہ خدایا ! میں نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا ہے : اللہم لک صمت ۔ زکوۃ مال پر خدا کی سلطانی کا اعتراف ہے ، حج خانہ خدا کی زیارت ہے ، قربانی خدا کے لئے جان دینے کا عہد ہے ۔ نکاح سے پہلے خطبہ اسی بات کا اظہار ہے کہ حلال وحرام کی کلید خدا ہی کے ہاتھوں مں ہے اوراسی کے حکم سے یہ دو مرد و زن ایک دوسرے کے لئے حلال ہوئے ہیں ، اُٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے اور خوشی وغم کے موقع پر جتنی دعائیں ہیں اور جو بھی اذکار منقول ہیں وہ سب خدا کی قدرت کے اعتراف ، اس کی نعمت پر شکر اور مصیبت میں اسی کی طرف رجوع اور اسی سے مدد خواہی او استعانت کے سوا اور کیا ہے ؟
افسوس کہ عقیدہ توحید جو مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا سرمایہ فخر تھا ، اقوام عالم جس کی معقولیت پر رشک کرتی رہی ہے اور انہوں نے دیکھا دیکھی بگڑی ہوئی شکل میں سہی اپنے یہاں توحید کے لئے جگہ پیدا کی ہے ، وہی امت مرحومہ آج شرک کے دامِ ہم رنگ میں پھنسنا چاہتی ہے