میں نے تجھے اخلاق سکھا دیئے (قد ادبتک) تعلیم دے دی اور تمہارا نکاح کر دیا۔ اب میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ اس سے کہ تو دنیا میں میرے لئے فتنہ کا یا آخرت میں عذاب کا باعث بنے (۱)۔
اسی اخلاقی تربیت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو کسی ایسی حرکت سے منع فرمایا جو بچہ کے معصوم اور سادہ ذہن پر اپنا غلط نقش چھوڑ جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا کہ جو شخص بچہ کو کہے کہ یہ لے لو، پھر اسے نہ دے تو یہ بھی جھوٹ ہے (۲)۔ ایک بار دسترخوان پر حضرت عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ کھانے میں شریک تھے، جو اس وقت بہت کم سِن تھے، وہ برتن میں مختلف جگہوں سے کھا رہے تھے جو آدابِ طعام کے خلاف تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور اپنے سامنے سے کھانے کا حکم فرما دیا (۳)۔ ایک بچی آئی اور اس نے بسم اللہ کہے بغیر دسترخوان سے کھانا چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے اور فرمایا، جس کھانے پر خدا کا نام نہ لیا جائے اس میں شیطان شریک ہو جاتا ہے (۴)۔
اسلام میں تعلیم کو جو اہمیت حاصل ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ اسلام ایک خاص حد میں "جبری تعلیم" کا حامی ہے۔ اس لیے کہ اس نے تعلیم حاصل کرنے کو مسلمانوں کا مذہبی فریضہ قرار دیا ہے۔ "طلبُ العلم فریضۃ علیٰ کلّ مسلم" (۵) اور جو فرائض ہوں ان میں جبر سے کام لینا ہے۔ پھر چھوٹے بچوں کی تعلیم کو اسلام نے خصوصی اہمیت دی ہے۔
---------------------------------------------------------------
(۱) مسند ابن حبان عن انس رضی اللہ عنہ۔
(۲) مسند احمد بن انس رضی اللہ عنہ۔
(۳) کنز العمال عن عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ ۲/۴۔
(۴) کنز العمال عن حذیفہ رضی اللہ عنہ۔
(۵) ابن ماجہ عن انس رضی اللہ عنہ۔