آپ ﷺ نے فرمایا، لوگوں میں اللہ سے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے(1) بالخصوص بچوں کو تو از راہ تربیت پہلے سلام کرنے کی تاکید کرنی چاہئے، آپ ﷺ کا جب بھی بچوں سے گذر ہوتا ان کو سلام فرماتے (2)
ایسا شخص جو علانیہ فسق و فجور میں مبتلا ہو، حوصلہ شکنی اور اصلاح کی غرض سے ان کو سلام نہیں کرنا چاہئے، اسی طرح جو کسی شرعی وجہ مثلاً نماز، تلاوت، خطبہ و اذان ، احکام و مسائل کی تکرار وغیرہ یا کسی طبعی وجہ سے مثلاً کھانے کی وجہ سے سلام کا جواب دینے سے عاجز ہو تو ان حالات میں سلام نہ کیا جائے اور کوئی شخص سلام کرے تو اس کا جواب دینا ضروری نہیں (3) البتہ خیال رہے کہ کسی فاسق و فاجر کو سلام نہ کرنے کی وجہ سے تعلقات میں مزید تلخی اور امید اصلاح کی کم یا منقطع ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں سلسلہ سلام باقی رکھنا چاہئے کہ اصل مقصود مفاد دینی کی رعایت ہے
جماعت میں سے کسی ایک شخص کو سلام کرنا اور جواب دیدینا کافی ہے ضروری نہیں کہ سبھی الگ الگ سلام کریں اور جواب دیں (4) ضرورتاً اشارہ سے سلام کرنا حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہے اس طرح کہ ساتھ ساتھ سلام کے الفاظ بھی کہے جائیں (5) مگر عیسائیوں ، یہودیوں کی طرح اشارہ سلام کےلئے استعمال کرنا درست نہیں، حضور ﷺ نے اس سے منع
-----------------------------------------------------------------
(1) ابو داؤد،مسند احمد، ترمذی عن ابی حالہ، باب فی فضل من بدا بالسلام ابوداؤد 706/2
(2) بخاری و مسلم عن انس بن مالک، باب التسلیم علی الصبیان بخاری 923/2
(3) درمختار 267/5
(4)ابوداؤد عن علی بن ابی طالب، باب ماجاء فی رد الواحد عن الجماعۃ 708/2
(5)ترمذی عن صہیب، باب ماجاء فی الاشارۃ فی الصلوٰۃ