کا آئینہ ہے، بچوں کا محافظ ہے، جانورں کےلیے پیام رحمت ہے، تہذیب و ثقافت اور تمدن کی معراج ہے، علماء کےلئے جولانگاہ علم و تحقیق ہے، عامیوں کےلئے سر چشمہ ہدایت و توفیق ہے، صبح و شام کا خضر طریق اور روز شب کا رہبر کامل ہے، سلطانی بھی ہے اور دروشی بھی، امارت بھی ہے اور محکومیت بھی، دولت و ثروت بھی ہے اور صبر و قناعت بھی، خلوت بھی ہے اور جلوت بھی-----کونسی صنف و جنس ہے جو اس کی بارانِ رحمت سے محروم ہے اور کونسا گوشہ زندگی ہے جو اس کی ہدایت و رہبری سے تاریک ہے؟
لیکن اس کی وسعت و ہمہ گیری کو سمیٹا جائے تو محض دو لفظوں" اسوہ محمدی" سے عبارت ہے، آپ کے شب و روز، شام و سحر، خلوت و جلوت عبادت و معاشرت، معاملات و تعلقات ایک آئینہ ہیں۔ اس آئینے میں جس کی زندگی جتنی مکمل محسوس ہو وہ ایمان و اسلام کی کسوٹی میں اسی قدر پورا ہے، اسی کو قرآن نے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:21)کہا اور اسی حقیقت کو شاعر حق شناس اقبالؔ نے یوں کہا ؎
بہ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست ،اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی ست
کتاب کے اس آخری باب میں اسوہ محمدی کی چند جھلکیاں ہیں آداب و معمولات ہیں، اخلاقی ہدایات اور نقوش شام و سحر ہیں جو اہل ایمان کی چشم عقیدت کا سرمہ اور نگاہِ احترام کا سکون ہیں۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔