ہماری فقہ کی کتابوں میں سینکڑوں احکام ہیں جو اسی قاعدہ پر مبنی ہیں مثلاًلقمہ حلق میں اٹک جائے اور شراب کے سوا کوئی سیال چیز نہ ہو جس کے ذریعے لقمہ حلق سے اتارا جاسکے تو شراب کا استعمال کیا جاسکتا ہے ۔جان بچانے کے لئے زبان سے کلمہ کفر کا تلفظ کرسکتا ہے (1)بھوک سے جان جانے کی نوبت ہو اور رفیق سفر کے پاس کھانا موجود ہو تو بلا اجازت اس کا کھانا کھاسکتاہے (2)صرف ریشمی کپڑا ہی ہو ،کوئی اور کپڑا موجود نہیں ہو تو بے لباس رہنے ،یا اس طرح نماز پڑھنے کے بجائے یہی کپڑا پہن لے (3)حرام و ناپاک اشیاء کے بطور علاج جائز ہونے کا مسلہ بھی اسی قاعدہ سے متعلق ہے۔
جو مجبوریاں نا جائز کو وقتی طور پر جائز کردیتی ہیں وہ یا تو ایسی ہوں کہ ان سے چارہ نہ ہو ،مثلاًان کے بغیر ہلاکت کا اندیشہ ہو یا ایسی ہوں کہ ان کی رعایت نہ کی جائے تو شدید مشقت اور دشواری پیدا ہوجائے پہلی صورت کو اصطلاح میں "ضرورت "اور دوسری صورت کو "حاجت " کہاجاتا ہے (4)اسی لئے فقہاء کے یہاں قاعدہ ہے کہ حاجت کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ضرورت کا ۔الحاجۃ تنزل منزلۃ الضرورۃ(5)اس قاعدہ کے ساتھ بنیادی شرط یہ ہے کہ ضرورت کے بہ قدر ہی ایسی نا جائز باتیں جائز رہیں گی ۔مثلاًڈاکٹر نے کسی اجنبی وعرت کو علاج
-------------------------------------------------------
(1)الاشباہ للسیوطی74-173
(2)عالم گیری238/5
ـ(3)تاتار خانیہ 418/1
(4)الاشباہ للسیوطی176
(5)الاشباہ لابن نجیم91