بھی زمین ہی انسان کی غذائی ضروریات کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اسی کے ذریعہ نہ صرف غذا بلکہ علاج و ادویہ کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں ، اسی لئے اسلام نے اس کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی ہے ۔ زمین کا خواہ مخواہ افتادہ رہنا اور اس کی قوتِ کاشت سے فائدہ نہ اٹھانا ناپسندیدہ بات ہے ، چنانچہ اگر ایسی افتادہ زمین ہو جس کو فقہ کی اصطلاح میں "موات" کہتے ہیں تو اسے جو بھی آباد کر لے جائز ہے (۱) ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایسی سرکاری غیر مزروعہ زمین سرکار کی اجازت سے کاشت کی جا سکتی ہے ۔ پھر اگر تین سال گزر جائے اور وہ کوئی فائدہ نہ اٹھائے تو زمین اس سے لیکر دوسرے کو حوالہ کر دی جائے گی تاکہ دوسروں کو استفادہ کا موقع مل سکے (۲) ۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک تو ایسی افتادہ زمین کی آباد کاری کے لئے حکومت سے اجازت کا حصول بھی ضروری نہیں (۳) ۔
البتہ دوسرے مشاغل کی طرح کاشت کاری میں بھی اتنا غلو اور استِغال کہ دوسرے فرائض سے غفلت ہو جائے مناسب نہیں ، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو امامہ باہلی کے گھر میں کھیتی باڑی کے سامان دیکھے تو فرمایا کہ جس قوم کے گھروں میں یہ آتا ہے وہاں ذلت بھی آ جاتی ہے (۴) ۔ غالباً ایسا اس لئے فرمایا گیا کہ کھیتی باڑی کرنے والے نہ جہاد اور دفاع کی تیاری کر پاتے ہیں اور نہ اسفار کی ۔ اس کی وجہ سے ان کے اندر بزدلی اور بزدلی کی وجہ سے ذلت پیدا ہو جاتی ہے (۵) ۔
---------------------------------------------------------------------
(۱) ابو داؤد ۔
(۲) خلاصۃ الفتاویٰ ۴/۳ ۔
(۳) رحمت الامۃ ص:۳۶ ۔
(۴) بخاری کتاب المزراعۃ باب مایحذر من عواقب الاشتیغال الخ ۔
(۵) دیکھئے عمدۃ القاری ۱۵۶/۱۲ ۔