مصنوعی قلت پیدا کرنا ہے تاکہ قیمتیں بڑھیں (۱)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احتکار کرنے والا خطا کار محض ہے (۲)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے چالیس دنوں تک احتکار کیا، اس سے اللہ اور اس کا رسول بری ہیں (۳)۔ ایک اور روایت میں آپ نے ذخیرہ اندوزوں کا مزاج یہ بتایا کہ اس کو ارزانی سے افسوس اور گرانی سے خوشی ہوتی ہے۔
بعض فقہاء کے نزدیک احتکار اور ذخیرہ اندوزی صرف غذائی اشیاء میں ممنوع ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تمام ہی اشیاء میں ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے (۴)۔ یہی رائے مالکیہ کی بھی ہے (۵)۔ اور واقعہ ہے کہ یہی رائے زیادہ صحیح ہے۔ فقہاء نے اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے اور اس سے عام لوگوں کو مشقت ہو تو حکومت جبراً ان کا مالی ذخیرہ فروخت کرا سکتی ہے (۶)۔
اسی طرح حدیث میں ایک خاص صوفت "بیع حاضر لکباد" کی ممانعت وارد ہوئی ہے (۷)۔ "بیع حاضر للباد" سے مُراد یہ ہے کہ اہل دیہات اپنا مال لیکر شہر میں آئیں اور شہر کے تجار ان کا مال لے کر خود شہر میں بیچ دیں کہ یہ دیہاتی کم دام میں سامان فروخت کریں گے اور نتیجہ میں قیمت اُتر جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی منع فرمایا کہ اس میں عام لوگوں کے لیے مضرت ہے۔
------------------------------------------------------------------
(۱) ترمذی کتابُ البیوع، باتُ ماجاء فی الاحتکار۔
(۲) ترمذی کتاب البیوع، باب ماجاء فی الاحتکار۔
(۳) مجمع الزوائد ۱۰۰/۴، باب الاحتکار۔
(۴) در المختار کتاب الحظر والاباحۃ ۲۵۲/۵۔
(۵) کتاب الانصاح ۳۶۶/۱۔
(۶) ہندیہ ۲۱۴/۲۔
(۷) ترمذی کتاب البیوع باب ماجاء لاتبیع حاضر لباد۔