۱۔ شوہر کا مادہ انجکشن وغیرہ کے ذریعہ عورت کے رحم تک پہنچا دیا جائے ۔
۲ ۔ شوہر وبیوی کے مادے حاصل کئے جائیں اور کسی ٹیوب میں مخصوص مدت تک ان کی پرورش کی جائے ، پھر اسی عورت کے رحم میں اس کو منتقل کردیا جائے ۔
۳ ۔ شوہر اور اس کی ایک بیوی کا مادہ حاصل کیا جائے اوراس آمیزے کو اسی شوہر کی دوسری بیوی کے رحم میں منتقل کردیا جائے ، اس لئے کہ اس کی پہلی بیوی زچگی کی متحمل نہ ہو یا طبی اسباب کی بنا پر تولید کی اہل نہ ہو ۔
راقم سطور کا خیال ہے کہ گو ان صورتوں میں شوہر کے لئے جلق ، عورت کے لئے دایہ کے سامنے بے ستری او ایک گونہ استقرار حمل کے لئے غیر فطری طریق کے استعمال کی نوبت آتی ہے لیکن اگر طبی اعتبار سے عورت استقراء حمل کی صلاحیت نہیں رکھتی ہو اور حصول اولاد کا شدید داعیہ ہو تو اس کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طریقۂ علاج ہے اور شریعت میں علاج کے باب میں ان امور میں نرم روی کی گنجائش موجود ہے ۔ ہاں بہتر ان طریقوں سے اجتناب ہی برتنا ہے ۔
یہ تو ظاہر ہے کہ اس مولود کا باپ وہی ہوگا جس کا مادہ تھا ۔ ثبوت نسب کے لئے شوہر کے نطفہ سےبیوی کا حاملہ ہونا کافی ہے ، جسمانی طور پر مباشرت ضروری نہیں (۱) ہاں اگر مرد کی ایک بیوی کا بیضۃ المنی حاصل کیا گیا اور دوسرے کے رحم میں پرورش و پرداخت ہوئی اور اس نے ولادت کی تکلیف برداشت کی تو ظاہر ہے کہ یہ دوسری عورت اس کی ماں ہوگی اس لئے کہ قرآن نے بچہ جننے والی ہی کو ماں قرار دیاہے لیکن چوں کہ اس پہلی عورت کا بیضۃ المنی بھی اس کی تکوین کے لئے اصل اور اساس بنا ہے اس لئے اس کو بھی ماں قرار دیا جانا چاہیے ۔ فقہاء کے یہاں بعض صورتوں میں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ ایک بچہ کا نسب دو
---------------------------------------------------------
(۱) دیکھئے عالمگیری ۲؍۳۴۳ ، مطبوعہ دیوبند ۔