اور اسلامی ملک میں رہنے والی کتابیہ عورت کے درمیان فرق ہے یا نہیں ؟
حضرت عبد اللہ بن عباس تو داراکفر کی کتابیہ سے نکاح کو بالکل ہی منع کرتے ہیں ، لیکن عام فقہاء اس کی کراہت کی طرف مائل ہیں ۔اور یہی فقہاء احناف کی رائے ہے ۔ واصحابنا یکرھون مناکحات الحرب من اھل الکتاب (1)
وہ کتابیہ خواتین جو مسلم ممالک میں رہتی ہوں ، عبد اللہ بن عمر ، ان سے بھی نکاح کو مکروہ قرار دیتے تھے )2٭ حضرت عمر کا واقعہ مشہور ہے کہ حضرت حذیفہ نے ایک یہودی خاتون سے نکاح کیا تو انہیں مکتاب لکھا اور طلاق دینے کا حکم فرمایا (3) اس سے احساس ہوتا ہے کہ مسلم ممالک میں بھی اہل کتاب خواتین سے نکاح کراہت سے خالی نہیں ، اس لئے علامہ شامی نے لکھا ہے کہ دارالکفر میں کتابیہ سے نکاح مکروہ تحریمی ہے اور دارالاسلام میں مکروہ تنزیہی ( والاولی ان لایفعل ) یفید کراھۃ التنزیہ فی غیر الحربیۃ وما بعدہ یفید کراھۃ التحریم فی الحربیۃ (4)
پس اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی ناپسندیدگی کی وجہ ظاہر ہے ۔مرد کے نہ صرف عمل بلکہ فکرونظرپر بھی بیوی جس درجہ اثرانداز ہوتی ، بچوں کی ذہنی نشوونما میں ماں کا جو طاقتور کردار ہوتاہے اور سماج اور سوسائٹی کے اصلاح وفساد میں خواتین کا جو حصہ ہے وہ محتاج اظہار نہیں ۔ پھر ہمارے زمانہ میں اہل کتاب خواتین اور انکی سوسائٹی مین جو اباحیت اور اخلاقی انارکی ہے وہ بھی محتاج اظہار نہیں ، ان حالات میں ایل کتاب عورتوں سے نکاح کے بارے
-------------------------
(1) احکام القرآن للجصاص 326/3
(2) حوالہ مذکورہ 324/3
(3) رواہ ابن ابی شیبہ بسند لاباس بہ
(4) ردالمحتار