اول یہ کہ اس کے لئے غیر فطری راہ اختیار نہ کی جائے، یعنی پائخانہ کے مقام کو اس کےلئے استعمال نہ کیا جائے، اس کی طرف ایک لطیف اشارہ خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے، چنانچہ بیوی کو کھیتی قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے اولاد کی پیداوار اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ فطری مقام پر صحبت کی جائے۔ حدیثیں اس سلسلہ میں کثرت سے وارد ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مرد یا عورت سے پیچھے کی راہ میں ملے، خدا اس کی طرف نظرِ رحمت نہ ڈالے گا (۱)۔ امام نووی کا بیان ہے کہ تمام قابلِ ذکر علماء متفق ہیں کہ عورت سے دُبر میں وطی کرنا حرام ہے۔ وہ پاک ہو یا حیض کی حالت میں ہو (۲)۔ بعض سلفِ صالحین سے جو دبر میں جماع کا جواز نقل کیا گیا ہے وہ محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔ سلف نے جس بات کو جائز رکھا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کی شرمگاہ ہی میں وطی کی جائے لیکن اس کے لئے ایسی ہیئت اختیار کی جائے کہ مرد عورت کی پشت کی طرف سے صحبت کرے، فیطاً من الدبر لا فی الدبر (۳)۔
دوسرے یہ کہ حیض کی حالت میں بیوی سے مباشرت نہ کی جائے، خود قرآن مجید میں اس کی ممانعت موجود ہے (البقرہ:۲۲۲)۔ احادیث بھی کثرت سے اس سلسلہ میں وارد ہیں (۴)۔ اور اس کی وجہ ظاہر ہے حیض ایک طرح کی نجاست ہے، انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے بچائے، نیز اس کے بڑے طبیّ نقصانات بھی ہیں جن کا طبی کتب میں ذکر کیا گیا ہے، جو حکم حیض کا ہے وہی نفاس یعنی ولادت کے بعد آنے والے خون کا بھی ہے ("حیض"
------------------------------------------
(۱) ترمذی ۱/۱۴۸۔
(۲) شرح مسلم ۱/۴۶۳۔
(۳) زاد المعاد ۳/۱۷۶۔
(۴) ترمذی عن ابی ہریرۃ، باب ماجاء فی کراہیہ اتیان الحائض ۱/۳۵، بخاری عن عائشہ ۱/۴۴۔