کا پیام دیا جائے ، پہلے اس کو دیکھ لیا جائے ۔
اذ خطب احدکم المراۃ فان اشتطاع ان ینظر الی ما یدعوہ الی نکاحھا فلیفعل (1)جب تم میں سے کوئی کسی خاتون کے یہاں نکاح کا پیام بھجے تا جو چیز اس کے نکاح کی داعی بنی ہے اس کو دیکھ سکے تو دیکھ لے ۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ لڑکی اور اس کے اولیاء سے پیشگی اجازت لے لے بلکہ غیر محسوس طور پر دیکھ لے تو یہ بھی کافی ہے ۔حضرت جابر کی مذکورہ رویت میں
خود اس امر کی صراحت ہے کہ میں نے ایک عور ت کو نکاح کا پیام دیا اور چھپ کر اسے دیکھا (2) اجازت سے بھی دیکھ سکتا ہے ۔ حضرت عمر نے ام کلثوم صاحبزادی حضرت علی کو ان کی اجازت ہی سے دیکھا تھا ۔ تاہم یہ خیال ہوتا ہے کہ بلا اظہار دیکھنا زیادہ مناسب نہیں کہ لڑکی کو دیکھ کر پھر رشتہ رد کردیا جائے تو اس کا نفساتی اثر اچھا نہیں پڑتا ، لڑکا خود دیکھنے کی بجائے گھر کی دوسری عورتوں کے ذریعے لڑکی دکھلوائے اور ان کی خبر پر اعتماد کرے تو یہ بھی کافی ہے ، ویسے جیسا کہ مذکور ہوا لڑکا خود بھی لڑکی دیکھ سکتاہے ،ہندوستان میں لوگ اس کو معیوب سمجھتے ہیں ، یہ ٖصحیح نہیں۔
منگیتر کا ہاتھ اور چہرہ ہی دیکھا جا سکتا ہے (3) اور کپڑے کے اوپر سے جسم کا مجموعی قد وقامت اور بس ۔ عورتیں دیکھیں تو شریعت کے عام اصول وقواعد کے مطابق ، ناف سے گھٹنوں تک کا حصۃ چھوڑ کر جسم کے بقیہ ٖحصے حسبِ ضرورت دیکھ سکتی ہیں (4) البتہ لڑکے کے لئے ضروری ہے کہ نکاح کے ارادہ
--------------------------------
(1) ابو داؤد عن جابر بن عبد اللہ ، باب الرجل ینظر الی المراۃ وہو یرید تزوجھا 284/2
(2) حوالہ مذکورہ (3) حاشیہ ابوداؤد 284/2 مطبوعہ دہلی
(4) رد المحتار 237/5 باب الحظر والاباحۃ