ہاں یہ ضرور ہے کہ عورت کی طبعی حیا کا تقاضا ہے کہ اس کی پسند اور رضامندی کو ملحوظ رکھا جائے لیکن براہ راست ایجاب و قبول کی ذمہ داری اس پر نہ رہے۔ اس بنا پر شریعت نے بالغہ لڑکی کی طرف سے بھی ولی کی وساطت کو بہتر اور مستحب قرار دیا اور یہی منشا ہے ان روایات کا جن میں عورت کے نکاح کے لیے ولی کی ضرورت ظاہر کی گئی ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے (۱)۔ دوسرے فقہاء نے عورتوں کے نکاح کے لئے ولی کی موجودگی کی ایک ضروری شرط مانا ہے (۲)۔ نکاح کے اس سیدھے سادے طریقہ کا دوسری اقوام کے طریقۂ نکاح سے موازنہ کیا جائے تو اسلام کی شانِ رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ اسلام نے نکاح کے معاملہ میں اعلام و اظہار کو پسند کیا ہے اس لئے نکاح کے لئے گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیا گیا (۳)۔ نکاح کے اعلان کا حکم فرمایا گیا (۴)۔ اور اعلانِ نکاح کے لئے دف وغیرہ بجانے کی اجازت دی گئی ہے (۵)۔ مسجد میں نکاح کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے جہاں فطری طور پر لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ دعوتِ ولیمہ بھی جوڑ دی گئی ہے تاکہ اعزہ و اقرباء، دوست احباب پوری طرح واقف ہو جائیں لیکن فی زمانہ عقد نگاح کے لئے جو تکلفات کئے جاتے ہیں، دُور دراز سے نکاح میں شرکت کے لئے آتے ہیں، ایک شہر سے دوسرے شہر باراتیں جاتی ہیں اور لڑکی والوں کو ان کے لئے پُرتکلف کھانوں کا نظم کرنا پڑتا ہے، پھر تمام دوست
---------------------------------------------------------
(۱) مشکوٰۃ، باب الولی و استیذان المرٔۃ فی النکاح۔
(۲) ہدایہ ۲/۳۲۴، بابُ الاولیاء والاکفاء۔
(۳) مجمع الزوائد ۴/۲۸۵، باب ماجاء فی الولی والشہود۔
(۴) ترمذی ج:۱، باب ماجاء فی اعلان النکاح۔
(۵) حوالۂ سابق۔