بقاء وارتقا کےلئے کیا کچھ سامان نہیں کیا ہے،نغموں کی شیرینی اور شاعروں کی خیال آرائی اور بلند پروازی ان سب سے سوا ہے
غور کرو کہ فاطر کائنات کی طرف سے قرارواطمینان سے محرومی اور اضطراب وبے سکونی کے یہ سب سامان حضرت انسان کیلئے کیوں کئے گئے ہیں ؟ اسی لئے کہ انسان کے ورع وتقوی واختیاط ،اطاعت وفرمانبرداری اور تقوی ورضا جوئی کا امتحان لیا جا سکے اور اس سے بڑھ کر دوسرا مقصود یہ ہے کہ نسل انسانی کی اپنی افزائش اور اس میں تسلسل برقرار رہے ،پھر افزائش نسل کی ایک صورت یہ ہوسکتی تھی کہ عصمت انسانی بھی ہوا اور پانی کی طرح عام اور بے قید ہو۔لیکن جو بے اعتدالی ،بے غیرتی وبے حیائی ،منافست باہمی ،نسل انسانی کی اپنی شناخت سے محرومی اور اعتماد وفقدان کا ظہور میں آتا ،اس سے معاشرے میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا وہ محتاج اظہار نہیں ،تاریخ میں کئی ایسے مراحل آئے ہیں جب حیوان نما انسانوں اور شیطان حقیقی کو شرمندہ کردینے والے شیطانوں نے اس کا تجربہ کیا ہے،ایسا تجربہ کہ جس کے ذکر اور تصور سے بھی حیا کا لہو ٹپکتا ہے،روم پر وہ دور انحطاط جب طوائف بننا معاشرے کیلئے اک آئیڈیل تھا اور مزدک کی وہ تحریک جس میں ماں اور بیٹی کی تمیز روا نہیں تھی ،اس کی شرمناک مثالیں ہیں اور افسوس کہ مغرب کی جاہلیت جدیدہ نے ایک بار پھر تہذیب وثقافت کے پیرہن میں ملبوس ہوکر اسی تاریخ بد انجام کو دہرانے کی سعی کی ہے .
والی اللہ المشکتی ۔
اس افراط کے مقابلہ اس تفریط کا ظہور ہوا کہ مرد و زن کے رشتہ صنفی کو بہر طور ایک نا پاکی اور نجاست تصور کر لیا گیا اور نا قابل عفو گناہ ٹھیرایا گیا ، روم میں بھی بے قید اباحت کے مقابلہ یہی رد عمل پیدا ہوا اور ایران میں