کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی مقصد کے تحت جمعہ و عیدین اور بعض دوسرے مواقع پر خطبات رکھے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی نبوت کا اعلان بھی ایک مؤثر اور مدلّل خطاب ہی کے ذریعہ فرمایا۔ خطاب میں مؤثر لب و لہجہ اور اسلوب کا اختیار کرنا کہ لوگوں پر اس کا اثر ہو، بُری بات نہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات عربیت کے لحاظ سے نہایت بلیغ، سادگی کے باوجود نہایت مؤثر، جامع اور پُر معنی ہوا کرتے تھے۔ غزوۂ حنین کے بعد حجہ الوداع کے موقع سے اور اسی طرح بعض دوسرے موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبات ارشاد فرمائے ہیں وہ اتنے پُر تاثیر ہیں کہ آج بھی ان کو پڑھ کر آنکھیں نم ہوتی ہیں۔ البتہ اس میں تکلف اور تصنع کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔ ارشاد ہوا : "ھلک المتنعّعون"۔ شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ "متنتعون" سے مراد وہ لوگ ہیں جو فصاحت و بلاغت میں تکلف کرتے ہوں اور ازراہِ تصنع انتہائے حلق سے آواز نکالتے ہیں (۱)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تم سب سے زیادہ مبغوض اور قیامت کے دن مجھ سے دور وہ لوگ ہوں گے جو بدخلق، بہت گفتگو کرنے والے (ثر ثارون) غیر محتاط اور تضحیک آمیز باتیں کرنے والے (متشدقون) اور کبر آمیز باتیں کہنے والے (متفیھقون) ہوں گے (۲)۔
تقریر میں رنگ آمیزی کےھ لئے جھوٹے واقعات اور موضوع اور غیر مستند روایات کا نقل کرنا عظیم ترین کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جانتے بوجھتے مجھ پر جھوٹ کہا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ بلکہ جب تک کسی مستند کتاب، صاحبِ نظر عالم سے تحقیق نہ ہو جائے، ہر سنی اور دیکھی ہوئی روایت کا نقل کرنا جائز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ
----------------------------------------------
(۱) مرقاۃ ۴/۶۱۱۔
(۲) ۔۔۔۔ بحوالۂبیہقی عن ابی ثعلبہ الخشنی، کتاب الشعر /۴۱۰۔