ہو گئے ، اسی غزوہ خندق کے موقع سے جب انصار جوش میں یہ شعر پڑھتے؎
نحن الذین بایعوا محمدا علی الجھاد وما بقینا ابدا
ہم لوگ وہ ہیں جنہوں نے حضرت محمدؐ سے جہاد پر بیعت کی ہے جبتک کہ ہم زندہ رہیں ۔تو اپنے وفاداروں اور سرفروشوں کے اس رجزیہ شعر کا جواب ان دعائیہ کلمات میں زبان مبارک سے نکلتا؎
اللھم لاعیش الا عیش الاٰخرۃ فاغفر للانصار والمھاجرۃ (1)
اے اللہ آخرت کے سواکوئی زندگی نہیں انصار اور مھاجرین کی مغفرت فرما۔
ایک غزوہ کے موقع سے کہ آپ کی انگلی زخمی اور خون آلود ہوگئی تھی ، ارشادہوا
ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت (2)
اے انگلی ! تو اللہ کے راستہ میں زخمی اور خؤن آلود ہوئی۔ کوئی بڑی آزمائش سے دوچار نہ ہوئی
یہ اور اس طرح کے مصرعے جو کبھی اتفاقا زبان مبارک سے جاری ہوئے ہیں ، شعر گوئی کا مصداق نہیں بلکہ بے ارادہ بے تکلف اور بے ساختہ فقرے ہیں جو موزون ہو گئے ہیں (3) البتہ آپ کے متعدد صحابہ حضرت علی ، حضرت حسان ، حضرت کعب اورحضرت عبداللہ ابن رواحہ وغیرہ بلند پایہ شعراء میں تھے اور ان کے سامنے ہیمشہ اسلام کی سربلندی ہوکرتی تھی اسی لئے فقہاء نے بھی مباح اشعار کے پڑھنے کو جائز قراردیا ہے ، اشعار میں عورتوں کا اور ان کے حسن وجمال کا اس طرح ذکر جس سے سفلی جذبات غیر معتدل ہو جائیں جائز نہیں ، البتہ اگر مطلق عورت کے اوصاف بیان کئے جائیں ، متعین زندہ عورت کے اوصاف بیان نہ کئے جائیں اور وہ جیسا کہ مذکور ہوا، نفسانی جذبات برانگیختہ کرنے والے نہ ہوں تو جائز ہے (4) اگر آدمی دوسرے اور بہتر ضروری کاموں کو چھوڑ کر مشق سخن میں لگارہے تو یہ
-------------------------------
(1) بخاری عن انس باب غزوۃ الخندق 589/2
(2) بخاری عن جندب باب ما یجوز من الشعر 908/2
(3) مرقاۃ المفاتیح 623/4
(4) دیکھئے عالمگیری 351/5