ہے کہ شعراءنے اپنی زبردست صلاحیت کا استعمال ذہن واخلاق کی تعمیر کے لیے کم اور اپنے رکیک جذبات کے اظہار کےلئے زیادہ کیا ہے، غالبا ان ہی دونوں جہتوں کو سامنے رکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں اس کی تعریف کی ہے اور کہیں اس کی مذمت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعر کی تاثیر کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا کہ قریش پر تیر سے زیادہ سخت ہے (1) اور شعر کے مضمون کے بارے میں فرمایا کہ بعض اوقات اس میں حکمت کی باتیں ہوتی ہیں " ان من الشعر لحکمۃ" ایک اور روایت میں اشعار کے ذریعہ دشمن کے مقابلہ کو جہاد باللسان فرمایا گیا دوسری طرف زبان حق ترجمان نے بھی یہ ارشاد فرمایا کہ شعر سے پیٹ بھرنے سے بہتر پیپ سے پیٹ بھرنا ہے۔ قرآن نے شعراء کے بارے میں فرمایا:
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ (الشعراء224) بے راہ لوگ ہی شعراء کی پیروی کرتے ہیں۔
لیکن دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات میں کوئی تضاد نہیں ہے، اصل یہ ہے کہ شعر فی نفسہ ایک ذریعہ اظہار ہے، اگر صحیح مقاصد کا اظہار پیش نظر ہو تو عین بہتر ہے اور غلط افکار کی نمائندگی کی جائے تو مذموم ہے ۔ خود آپﷺ کے ایک ارشاد سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ آپ ﷺ کے سامنے شعر کا ذکر آیا تو فرمایا کہ وہ بھی ایک کلام ہے ، اچھی بات کی گئی تو اچھا ہے ، بری بات کی گئی تو برا ہے:
ھو کلام فحسنہ حسن وقبیحہ قبیح۔ خود آپ ﷺ نے حضرت حسان سے اشعار پڑھوائے ہیں اور دعائیں دی ہیں کہ اللہ روح القدس کے ذریعہ
-----------------------------------------------------
(1 ) مسلم عن عائشہ مشکوۃ بحوالہ مسلم 409/2 ۔
(2) بخاری عن ابی کعب 908/2 باب مایجوز من الشعر ۔
(3) مشکوۃ عن کعب بن مالک ، الفصل الثانی باب البیان بالشعر 410/ ۔
(4) مسلم عن سعد ، کتاب الشعر 240/2 ۔
(5) مشکوۃ بحوالہ دار القطنی کتاب الشعر ، الفاسل الثالث 410/ ۔