اسی بنا پر سلف صالحین ہی کے زمانہ سے ایک گروہ ایسی تصویر کی حرمت کا قائل رہاہے جو سایہ دار ہو یعنی مجسمے۔ بے سایہ تصویریں جیسے کاغذی تصویریں ان کے نزدیک جائز ہیں ، عینی کا بیان ہے : وقال قوم انما کرہ من ذلک مالہ ظل ولا ظل لہ فلیس بہ باس (1) امام نووی نے بھی ایک جماعت علماء سے ایسی تصویروں کا جواز نقل کیا ہے (2) اور اسی بناپر قاضی عیاض نے صرف سایہ دار تصویر یعنی مجسمہ کی حرمت پر اجماع واتفاق نقل کیا ہے اور اس سے بھی گڑیا کو مسثنی رکھاہے : وقال عیاض واجمعوا علی منع ماکان لہ ظل (3)
شیخ عبد الرحمٰن جزیریؒ مالکیہ کا مسلک ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں : ثانیھا ان تکون مجسدۃ سواء کانت ماخوذۃ من مادۃ تبقی کالخشب والحدید والعجین والسکر اولا کقشر البطیخ ۔۔۔اما اذا لم یکن مجسدۃ کصورہ الحیوان والانسان التی ترسم علی الورق والثیاب والحیطان والسقف ففیھا خلاف۔۔۔۔اربعھا ان یکون لھا ظل فان کانت مجسدۃ ولکن لا ظل لھا بان بنیت فی الحائط ولم یظھر منھا سوی شیئ
تصویر کے حرام ہونے کی دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مجسم ہو چاہے وہ باقی رہنے والے مادہ جیسے لکڑی ، لوہا، گوندھا ہواآٹا اور شکر سے بنی ہو یا ناپائیدار مادہ مثلا خربوزہ کے چھلکے سے بنی ہو ۔۔۔۔ اگر حیوان اور انسان کی صورت کی طرح مجسمہ نہ ہو جو کپڑے ، کاغذ ، دیوار اور چھت پر نقش کیا جاتا ہے تو اس مین اختلاف ہے۔۔۔۔۔تصویر کے حرام ہونے کی چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ سایہ دار بھی ہو، اگر وہ مجسمہ کی شکل ہو لیکن سایہ دار نہ ہو مثلا دیوار میں اس طرح
----------------
(1) عمدۃ القاری 12/40
(2) شرح مسلم 199/20
(3) عمدہ القاری 40/12