لباس کو روحانی ترقی کیلئے اک رکاوٹ سمجھ لیا تھا اور نظافت وپاکیشگی ان کے نزدیک ایک خالص مادی اور دنیوی عمل تھا،خود عربوں کی شرم وحیا کا حال یہ تھا کہ کیا مرد کیا عورتیں سب بیت اللہ شریف کا برہنہ طواف کرتے (1) قضاء حاجت کے وقت پوشیدہ جگہ کے انتخاب کو ایک عار کی بات سمجھا جاتا (2)
رسول اللہ ﷺ نے انسانیت کو دوسری اخلاقی خوبیوں کے ساتھ ساتھ حیا وغیرت سے بہروافر عطا فرمایا اور اسی نسبت سے لباس کے سلسلہ میں متوازن ،فطر ت سے ہم آہنگ ،پاکیزہ اور مناسب ہدایات دیں
تہذیب جدید کا ایک آوارہ نفس طبقہ لباس کو ایک مصنوعی اور غیر فطری عمل قرار دیتا ہےاور برہنگی کو انسانی فطرت کہ ہر انسان اپنی ماں کی کوکھ سے بے لباس ہی پیدا ہوتا ہے لیکن اسلام ستر وحجاب اور لباس کو فطرت سلیم کی آواز قرار دیتا ہے ۔اسی لئے قرآن کا بیان ہے کہ جب پہلے دو انسان آدم وحوا کو ان کی بعض لغزشوں کی پاداش میں جنت کی نعمتوں سے محروم کیا گیا اور لباس جنت سے انہی عاری کر دیا گیا تو جس کے قابل ستر حصوں کو بے ساختہ انہوں نے چھپانے کی سعی کی ( طہ 121 ) یہ کائنات کے پہلے مردوزن کا ایک مضطربانہ عمل تھا جو انسانی فطرت اور اس کے تقاضہ کو نمایاں کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کرو کہ اول تو خدا نے جنین رحم کو بھی بے لباس نہیں رکھا ،قدرت نے اس کےلئے ایک خاص قسم کا غلاف ماں کے پیٹ میں رکھا ۔جو گویا اس کا لباس ہے ،فی ظلمات ثلاث ( الزمر 6) پھر اس کا بے لباس پیدا ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ اسے لباس نہیں پہننا چاھئے ،انسان دنیا میں اس حال میں آتا ہے کہ اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ، خون اس کی غذا ہوتا ہے اور ناف کے ذریعہ
----------------------
(1) حاشیہ بخاری بحوالہ مسلم عن ہشام عن ابیہ عروۃ 220/1
(2) داؤد ،باب الاستبراء من البول 4/1