کہ اس زمانہ میں جسم کے کسی حصہ کو کاٹنے اور نکالنے کا وہ محفوظ طریقہ وجود میں نہیں آیا تھا جیسا کہ آجکل ہے۔بلکہ اس طرح کے کاٹنے سے اس شخص کو ضرر شدید یا ہلاکت کا اندیشہ تھا چنانچہ مضطر اپنے جسم میں سے کوئی حصہ کاٹ کر خود کیوں نہیں کھا سکتا۔ ابن قدامہ اس پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں :ولنا ان اکلہ من نفسہ ربما قتلہ فیکون قاتلاً بنفسہ ولا یتیقن حصول البقاء باکلہ۔ (۱)۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ اس کا اپنے جسم میں سے کھانا اس کے لئے باعثِ ہلاکت ہو جائے گا، پس وہ خودکشی کرنے والا قرار پائے گا اور اس کے کھانے سے زندگی کے بچنے کا یقین نہیں۔
موجودہ زمانہ میں چوں کہ اس کے لئے محفوظ اور شائستہ طبی طریقہ وجود میں آ چکا ہے اس لئے اس صورت کو بھی جائز ہونا چاہیے۔ عام طور پر ان روایات سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے جن کے مطابق ایک عورت کو دوسری عورت کے بال استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے، یا وہ فقہی عبارات جن میں ایک شخص کو اپنے ٹوٹے ہوئے دانت کی جگہ دوسرے انسانی دانت کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ آرائش کے لیے دوسروں کے بال جوڑنا ضرورت نہیں، محض زینت ہے اور انسانی دانت کا استعمال ایسی چیز نہیں کہ اس کا متبادل نہیں ہو یا اس زمانہ میں اس کا متبادل موجود نہ رہا ہو، پیوند کاری کی موجودہ صورت میں ایک انسان کے لئے دوسرے انسان کا عضو شدید ضرورت اور جان کے بچاؤ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس وقت جب کہ اس کا کوئی متبادل موجود نہ ہو۔
-----------------------------------------------------------------
(۱) المغنی ۹/۲۳۵۔