انگلیوں میں پت داخل کر دینا بھی امام یوسف رحمۃ اللہ کے ہاں جائز ہے اور اسی پر فتویٰ ہے "اما ادخال المرارۃ فی الاصبع لتداوی جوزہ الثانی و علیہ الفتویٰ" یہ فقہی تصریحات اس بات کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ ضرورت انسانی کی رعایت کرتے ہوئے فقہاء نے ازراہِ علاج حرام و نجس اشیاء کے استعمال کی اجازت دی ہے بشرطیکہ اس کا کوئی طبی متبادل موجود نہ ہو یا وہ اس متبادل کے استعمال پر کسی وجہ سے قادر نہ ہو کہ غیر مقدور فقہاء کے ہاں غیر موجود کے حکم میں ہوا کرتا ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ دوسری ناپاک اشیاء کے مقابلے فقہاء نے "خنزیر" کے اجزاء استعمال کرنے میں زیادہ احتیاط کی راہ اختیار کی ہے اس لئے کہ خنزیر نجس العین ہے۔ بزازیہ میں ہے : "و یکرہ معلاجۃ الجراحة بانسان او خنزیر لا نھما محرم الا نتفاع (۲)" بعینہ یہی بات عالمگیری میں کہی گئی ہے (۳) میرا خیال ہے کہ خنزیر کے اجزاء کی ممانعت بھی اس وقت ہے جب کہ کوئی اور ذریعہ علاج موجود ہو۔ کیوں کہ خنزیر اپنی حرمت اور نجاست عین کی وجہ سے مطلقاً ناقابل انتفاع ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ ہی ہیں کہ چمڑے وغیرہ کی سلائی کے لئے خنزیر کے بال کے استعمال کو جائز رکھتے ہیں۔ اور فقہاء امام صاحب رحمۃ اللہ کی اس رائے کو دلیل و مصالح شرعی کے لحاظ سے "اظہر" قرار دیتے ہیں (۴) پس صحتِ انسانی کی حفاظت اور نفس انسانی کی صیانت کے لئے بدرجہّ اولیٰ اجزائے خنزیر کے استعمال کی اجازت دینی ہو گی۔
پھر جن حضرات نے نجس و حرام اشیاء سے بدرجہ ضرورت علاج کی اجازت دی ہے جہاں انسانی مصلحت اور شریعت کے عمومی قواعد و مقاصد ان کی تائید
----------------------------------------------------------------
(۱) بزازیہ علیٰ ہامش الہندیہ ۶/۳۶۷۔
(۲) حوالہ سابق ص : ۳۶۵۔
(۳) عالمگیری ۵/۳۵۴۔
(۴) عالمگیری ۵/۳۴۔