اور یہ تمام سوالات اس امر کے گرد گردش کرتے ہیں کہ آیا نجس اور حرام اشیاء سے علاج درست ہے یا نہیں؟
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا قول مشہور یہی ہے کہ حرام اشیاء سے علاج درست نہیں۔ " تکرہ البان الاتاک للمریض و کذلک التداوی بکل حرام" (۱)، امام شافعی رحمۃ اللہ نے عام محرمات سے تو علاج درست قرار دیا ہے لیکن شراب اور نشہ آور اشیاء سے علاج کرنے کو منع کیا ہے (۲)۔ ان حضرات کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ : ان اللہ لم یجعل شفاء کم فی حرام، یہی رائے امام طحاوی کی بھی ہے (۲)، مالکیہ حنابلہ اور احناف میں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ نے مطلقاً تمام حرام اشیاء سے علاج کی اجازت دی ہے۔ عالمگیری میں ہے :
یجوز للعلیل شرب الدم و البول و اکل المیتۃ للتداوی اذا اخبرہ طبیب مسلم ان شفاءہ فیہ ولم یجدنی فی المباح یقوم مقامۃ (۴)۔
بیمار کے لئے خون و پیشاب کا پینا اور مردار کا کھانا ازراہِ علاج جائز ہے بہ شرطیکہ کسی مسلمان طبیب نے اس میں شفایابی کی اطلاع دی ہو اور جائز چیزوں میں اس کا کوئی بدل موجود نہ ہو۔
احناف کے ہاں فتویٰ اس بات پر معلوم ہوتا ہے کہ مسکرات کا بھی ضرورتاً استعمال درست ہے۔ چنانچہ حنفیہ نے ازراہِ علاج بھنگ کی اجازت دی ہے، بزازیہ میں شراب کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے "خاف الھلاک عطشاً و عندہ خمرلہ شربہ قدر مَ یدفع العطش ان علم انہ ید فعہ (۵)۔
--------------------------------------------------------------
(۱) خانیہ علی الہندیہ /۰۵۳۔
(۲) کتاب الام ۲/۱۲۳۔
(۳) عمدۃ القاری ۱/۹۳۰۔
(۴) ہندیہ ۵/۳۵۵
(۵) بزازیہ علیٰ ہامش الہندیہ ۶/۲۶۶۔