خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے (۱)۔
۲ – جانور کی مطلوبہ چاروں نالیاں کاٹ دی جائیں کہ اس طرح جلد رشتہ حیات کٹ سکتا ہے (۲)۔
۳ – رگوں کو تیز تیز کاٹا جائے تاکہ تکلیف کم ہو (۳)۔
۴ – ان ہی چار نالیوں کے کاٹنے پر اکتفا کیا جائے اور گردن کی ہڈی تک نہ پہنچا جائے (۴)۔
۵ – گردن پشت کی طرف سے نہ کاٹی جائے بلکہ حلق کی طرف سے کاٹی جائے کیونکہ پشت کی طرف سے کاٹنے میں اذیت زیادہ ہے۔ البتہ اگر پشت ہی کی طرف سے کاٹنا شروع کر دے اور مطلوبہ رگوں تک پہنچنے تک اس میں حیات باقی رہے تو جانور حلال ہو جائے گا، لیکن یہ طریق ذبح مکروہ ہو گا (۵)۔
۶ – جھٹکے کے ساتھ جو جانور کاٹا جائے وہ بھی شریعت کے مقررہ قاعدہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے لیکن ذبیحہ حلال ہو جائے گا (۶)۔
۷ – یہ بھی مکروہ ہے کہ جانور کے سامنے آلاتِ ذبح تیز کیا جائے (۷)۔
۸ – مستحب ہے کہ جانور دن میں ذبح کیا جائے، رات میں ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے کہ مطلوبہ رگوں کے کٹنے اور نہ کٹنے کا اندازہ دشوار ہے (۸)۔
------------------------------------------------------------
(۱، ۲، ۳، ۴) بدائع ۵/۶۰۔
(۵) المغنی ۹/۳۱۹۔
(۶) شرحِ مہذب ۹/۸۱۔
(۷) المغنی ۹/۳۱۷۔
(8) بدائع ۵/۶۰ِ۔