نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو نحر کا حکم دیا "فصل لربک وانحر" (کوثر-۲) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک ایسی قوم میں ہوئی جو اونٹ کی پرورش کے لئے مشہور تھی اور بنی اسرائیل کو ذبح کو حکم دیا گیا کیوں کہ وہ گائے بیل وغیرہ سے غذائی ضرورت پوری کیا کرتے تھے۔ "ان اللہ یامرکم ان تذبحو بقرۃ" (۱) اس پر بھی اتفاق ہے کہ اگر گائے وغیرہ کا نحر کر دیا اور اونٹ کو ذبح کر دیا تب بھی ذبیحہ جائز ہو گا (۲) البتہ امام مالک کے نزدیک کسی مجبوری کے بغیر ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے (۳)۔
ذبح میں کن رگوں کا کاٹنا ضروری ہے، اس سلسلہ میں حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جانوروں کی "اوداج کاٹ دی جائیں" ما افری الاوداج (۴) اور احناف کے یہاں ادواج سے مراد غذا کی نالی (مری) سانس کی نلی (حلقوم) اور خون کی دونوں شہ رگ (ودجین) ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ یہ چاروں نالیاں کٹ جائیں (۵) کہ اس طرح جان بھی بسہولت نکل سکے گی اور خون بھی پوری طرح بہہ جائے گا۔ تاہم ان چان میں سے کوئی تین رگیں بھی کٹ جائیں تو کافی ہے۔ (۶) امام شافعی رحمۃ اللہ کے نزدیک غذا اور سانس کی نالی کا کٹ جانا ذبح شرعی کے لئے کافی ہے اور خون کی دونوں شہ رگ کا کاٹنا بہتر ہے (۷) یہی رائے حنابلہ کی ہے (۸) حقیقت یہ ہے کہ احناف ہی کی رائے اس باب میں زیادہ قرین عقل بھی ہے اور نص سے قریب ھی۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ گائے بکری وغیرہ کو لٹا کر ذبح کیا جائے اور
-------------------------------------------------------------------
(۱) المغنی ۹/۳۱۷۔
(۲) المجموع شرح مہذب ۹/۹۰۔
(۳) حوالہ سابق
(۴) الدرایہ علی الہدایہ ۴/۴۲۱ کتاب الذبائح
(۵) بدائع ۵/۴۱۔
(۶) حوالہ سابق
(۷) شرح مہذب ۹/۹۰۔
(۸) الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۱/۷۲۵۔