استعمال کو بے رحمی تصور کرتے ہیں اور اس کو مطلق منع کرتے ہیں، دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہر جانور کو انسانی خوراک قرار دیتے ہیں اور اس باب میں کوئی امتیاز و تفریق روا نہیں رکھتے۔ ------------ یہ دونوں ہی اعتدال سے دور اور قانونِ فطرت کے باغی ہیں۔ خدا نے اس کائنات میں جو نظامِ ربوبیت قائم کیا ہے وہ اسی پر مبنی ہے کہ اعلیٰ مخلوق اپنے سے کمتر مخلوق کے لئے سامانِ بقا بنے۔ غور کرو کہ درندے اپنے سے کمزور حیوان سے پیٹ بھرتے ہیں، چوپائے نباتات کھاتے ہیں اور اسی پر ان کی حیات کا دار و مدار ہے حالاں کہ نباتات میں بھی ایک نوع کی حیات موجود ہے۔ بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو غذا بناتی ہیں اور چھوٹی مچھلیاں آبی حشرات کو، زمین پر رہنے والے جانوروں کو خوراک زمین پر چلنے والے حشرات الارض ہیں، چھوٹے پرندے بڑے پرندوں کی خوراک ہیں اور کیڑے مکوڑے چھوٹے پرندوں کی۔ خدا کی کائنات پر جس قدر غور کیا جائے اس کے نظام و انتظام کی اساس یہی ہے ۔ جو لوگ اس اصلو کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں، ان کے لئے کم سے کم خدا کی اس بستی میں رہنے کا کوئی جواز نہیں کہ پانی کا کوئی قطرہ اور ہوا کی کوئی سانس اس وقت تک حلق سے اتر نہیں سکتی جب تک کہ سینکڑوں نادیدہ جراثیم اپنے لئے پیغامِ اجل نہ سُن لیں۔
یہی بے اعتدالی اس سمت میں بھی ہے کہ ہر حیوان کو غذا کے لئے درست سمجھا جائے۔ یہ مسلمات اور ثابت شدہ حقائق میں سے ہے کہ انسان پر غذا کا اثر پڑتا ہے۔ یہ اثر جسمانی بھی ہوتا ہے اور اخلاقی بھی۔ جانوروں میں شیر و ببر درندے ہیں، سانپ و بچھو کی کینہ پروری و ریشہ زنی کی خو معروف ہے، گدھے میں حمق ضرب المثل ہے، خنزیر میں جنسی بے اعتدالی و ہوسناکی کی اثر ان قوموں میں آفتاب نصف النہار کی طرح نمایاں ہے جو اس کا استعمال کرتی ہیں، کتّے کی حرص و